• news

جب تجھے دیکھ چلے، کوئی نہ تجھ سا دیکھا


یادش بخیر! قاضی حسین احمد (اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے) کو پہلی مرتبہ افغان جہاد کے وقت ایک تقریب میں دیکھا۔ نور کا ہالہ انکے چہرہ¿ انوار کا احاطہ کیا ہوا تھا۔ وہ سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کی بہادری اور عزم و ہمت کی پُرجوش داستانیں سُنا کر سامعین کے دلوں کو جوش و جذبے اور تابانی عشق سے مہکا رہے تھے۔ مجھے اس وقت بھی انکے خیالات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ پاکستانی فوج، پاکستان اور افغانستان کے اسلام پسند نوجوان امریکہ کی گریٹ گیم کے فرنٹ مین بن چکے ہیں اور وہ اپنے سرد جنگ کے بڑے حریف سوویت یونین کو مسلمان مجاہدین کے ذریعے شکست دینا چاہتا ہے مگر قاضی صاحب تو پختون اور روایت پسند مسلمان ہونے کے ناطے کیسے افغانستان کے نہتے مسلمانوں کو سوویت یونین کی فوج کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے دیکھ سکتے تھے چنانچہ تمام افغان رہنماﺅں خصوصاً حکمت یار، مولوی یونس خالص، پروفیسر برہان الدین ربانی، صبغت اللہ مجددی کی پاکستان میں ذاتی مہمانداری کا فریضہ ہمیشہ قاضی صاحب ہی سرانجام دیتے تھے تاہم وہ بعد میں ہمیشہ اس پر تاسف کا اظہار کرتے کہ اگر ہم امریکہ کی اس پراکسی وار کا حصہ نہ بنتے تو شاید آج ہمارے مجاہدین کو مغربی دنیا سے دہشت گردی کا لیبل نہ لگتا۔ بہرحال یہ انکی عظمت کی دلیل تھی کہ وہ اختلاف رائے کے باوجود اپنے نقطہ نظر کی تصحیح کرنے میں قطعاً تامل نہ کرتے تھے۔ اسلام آباد میں ادارہ فکر و عمل کے زیر اہتمام معروف دانشور طارق جان کی کتاب ”سیکولرزم اور اسکے مغالطے“ پر بحث و مباحثے کیلئے انہوں نے مجھے بطور خاص مدعو کیا اور بہت دیر تک صبر اور حوصلے سے میرے خیالات سُنتے رہے اور ان پر اپنے کمنٹس دینے کی بجائے بڑے بھولپن سے کہنے لگے عزیزم آپکی عمر کیا ہے؟ میں مسکرانے لگا تو وہ بھی بے ساختہ ہنس دئیے۔ تقریب کے اختتام پر انہوں نے مجھے اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا اور سیاست، مذہب، فلسفے اور اقبالیات پر ڈھیروں باتیں کرتے رہے۔ اُن میں حسِ مزاح اور شگفتگی کا عنصر بھی پایا جاتا تھا۔ طارق جان صاحب کے ساتھ انکی خاصی بے تکلفی تھی وہ تقریب میں خاصے نروس دکھائی دے رہے تھے تو قاضی صاحب نے بتایا کہ آپکی طرح کے ایک دانشور پشاور میں رہتے تھے ہم نے انکی کتاب کی تقریب رونمائی رکھی مگر وہ اس قدر پریشان ہوئے اور گھبرا گئے کہ تقریب شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے غائب ہو گئے، بعد میں جب ان سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو وہ کہنے لگے کہ میں پریشان ہو گیا تھا مجھے لگتا تھا کہ شاید آپ بھی اپنی کتاب کی تقریب سے کہیں غائب نہ ہو جائیں، اس پر ساری محفل کشتِ زعفران میں بدل گئی۔
قارئین ! قاضی حسین احمد صرف جماعت اسلامی کا اثاثہ نہیں تھے بلکہ وہ اپنی بہادری، سچائی اور پُرعزم شخصیت کی بدولت زندگی کے ہر طبقہ فکر میں یکساں احترام رکھتے تھے، تمام مسالک کے جید علماءاور پیروکار انکے معتقد تھے۔ 1977ءمیں پی این اے کی تحریک کے دوران مختلف اسلامی جماعتوں سے وابستہ مختلف مسالک کے لیڈران قومی اتحاد کے اجلاس کے بعد الگ الگ نماز پڑھتے تھے مگر جب قاضی صاحب کی زیر قیادت ایم ایم اے وجود میں آئی تو انکی برکت سے تمام شیعہ، سُنی، بریلوی اور دیوبند مسلک کے لیڈران ایک ہی امام کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے۔ یہ قاضی صاحب ہی تھے جنہوں نے ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے تمام مسالک کے علماءکرام سے متفقہ نکات کی منظوری حاصل کی اور وہ ہر فرقے اور مسلک کی مساجد میں تشریف لے جاتے اور نماز ادا کرتے کیونکہ وہ ایک خدا اور ایک نبی کے ماننے والوں کو اُمت واحدہ مانتے تھے اور اُمت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کیلئے زندگی کے آخری لمحہ تک کوشش کرتے رہے۔ وہ ہمیشہ متحرک ‘انتھک اور سیماب صفت رہے۔ وہ علامہ اقبال کے سچے پیروکار تھے اور ماہر اقبالیات کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اقبال کے علاوہ وہ فیض احمد فیض کی انقلابی شاعری کو بھی اپنی تقریروں کی زینت بناتے تھے، وہ تو ایک ایسی موج دریا تھے جن کے متعلق علامہ اقبال کا ارشاد ہے
مضطرب رکھتا ہے میرا دل بے تاب مجھے
عین سہتی ہے تڑپ صورتِ سیماب مجھے
موج ہے نام مرا، بحر ہے پایاب مجھے
ہو نہ زنجیر کبھی حلقہ گرداب مجھے
قارئین 9 نومبر 2012ءکو میری دعوت پر وہ نظریہ پاکستان فورم کے اجلاس میں ”علامہ اقبال کا پیغام عمل“ پر ایک لیکچر دینے کیلئے تشریف لائے حالانکہ 6 نومبر سے ہی انکی طبیعت ناساز تھی مگر کمال شفقت اور مہربانی سے وہ ایوان وقت اسلام آباد پروگرام کیلئے آئے اور نوجوان طلبہ و طالبات کو دیکھ کر انہوں نے اقبالؒ کی بڑی آسان فہم اور دلپذیر مگر پُراثر نظم ”لب پہ آتی ہے دعا بن کر تمنا میری“ پورے سیاق و سباق سے بیان کی، ہم سب حاضرین مجلس انکے پُرنور چہرے، سادگی، پُروقار شخصیت کے سحر میں کھو گئے۔ میں نے انکے ہاتھ کو بوسہ دیا تو انہوں نے انتہائی شفقت سے میرے چہرے کو اپنے ہاتھ کے لمس سے آشنا کیا اور گلے لگا لیا۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ آج جو ہم انکے ساتھ وقت گزار رہے اور تصاویر بنوا رہے ہیں اسکے بعد یہ مردِ قلندر جو نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو ہے دوبارہ انکا دیدار نصیب نہیں ہو گا وہ تو اپنی زندگی کے قافلہ¿ شوق کی رخصتی کی تیاری میں لگے ہوئے تھے۔ وہ مرشد نسیم انور بیگ سے گہری عقیدت اور محبت کا تعلق رکھتے تھے یہ تعلق اللہ اور رسول کی محبت کے واسطے قائم تھا مگر آہ! قاضی صاحب، نسیم انور بیگ صاحب اور پروفیسر غفور صاحب سبھی نایاب ہستیاں 2012ءمیں اللہ کو پیاری ہو گئیں ع
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دوکان اپنی بڑھا گئے
یہ تو وہ گنج ہائے گراں مایہ تھے جن کے متعلق سورة نحل میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”جب فرشتے انکی جان نکالتے ہیں جو پاک ہیں تو سلام علیکم کہتے ہیں (اور کہتے ہیں) اپنے اعمال کے بدلے میں تم جنت میں جاﺅ“
قاضی حسین احمد اُمت مسلمہ پر ابر کا ایک ایسا ٹکڑا تھے جو پیاسی روحوں اور تشنہ دلوں کی آبیاری کے ہر ویرانے جا برستا تھا۔ کبھی وہ سڑکوں پر دھرنا دے کر بیٹھ جاتے تو کبھی وہ اپنے ناتواں جسم پر لاٹھیاں کھاتے تو کبھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتا مگر مجال ہے کہ اپنی ذات کے حوالے سے کوئی حرفِ شکایت زبان پر لاتے۔ وہ ایک باوقار، باکردار بہادر شخص تھے، وہ ”سٹیٹس کو‘ کیخلاف تھے اسی لئے انہوں نے اسلامک فرنٹ تشکیل دیا تاکہ انکی جماعت عام پاکستانی کے خوابوں اور آرزوﺅں کی تکمیل کیلئے سیاست کرے۔ وہ نڈر اور بے خوف تو تھے مگر سادہ اور جلد اعتبار کرنے والے انسان تھے۔ وہ نوجوان شاہینوں کی تلاش میں گھر سے نکلتے تھے مگر اکثر انہیں دھوکہ باز، بے وفا، بے اصول اور مفاد پرست گدھوں سے واسطہ پڑا مگر کبھی شکوہ اور شکایت کرنا تو درکنار، سامنے آنے پر بھی ایسے حضرات کو کبھی اسکا احساس بھی نہ دلایا۔ آج اگر نواز شریف اور عمران خان بہت بڑے قومی لیڈر ہیں تو انہوں نے کاندھے مولانا فضل الرحمن، قاضی حسین احمد کے ہی استعمال کئے۔ ایم ایم اے قائم رکھنے کیلئے انہوں نے مولانا فضل الرحمن کی سیاست کو ناپسند کرنے کے باوجود اسلامی ذہن رکھنے والی قوتوں کے اتحاد کیلئے ہر ستم اپنے نازک دل پر برداشت کیا۔ اپنے پرایوں نے انکے دل ناساز پر کس قدر چرکے لگائے کہ وہ دل مجبور جاں کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے
ابھی تک لوگ ماتم کر رہے ہیں
وہ کیسا شخص تھا جو مر گیا ہے
مجھے پتہ ہے کہ انہوں نے کس قدر دل گرفتہ ہو کر مشرف کی 17ویں ترمیم پر قومی اسمبلی کے ممبر کے طور پر توثیق کی۔ وہ ہمیشہ جماعت اسلامی اور ایم ایم اے کے ڈسپلن کے پابند رہے۔ اکتوبر میں ملی یکجہی کونسل کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمن کو منانے خود انکی رہائش گاہ پر گئے اور کئی گھنٹے مولانا فضل الرحمن کے ڈرائنگ روم میں انکا انتظار کرتے رہے اور کافی جدوجہد کے بعد انکو منا کر کانفرنس میں لائے اور منور حسن صاحب سے انکی شکر رنجی دور کرائی۔ وہ اللہ اور رسول کی اطاعت اور محبت میں آخری دم تک اُمت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کیلئے کوشاں رہے۔ قاضی صاحب جیسی زندہ جاوید شخصیات کی لحد پر ہمیشہ جاوداں گلاب کے پھول کِھلتے رہیں گے۔
قاضی صاحب سچے انقلابی تھے وہ ضیاالحق اور مشرف کی ڈکٹیٹرشپ کے شدید ترین مخالف تھے مگر اسلام پسند جماعتوں کے فوجی ڈکٹیٹرز کے ساتھ گٹھ جوڑ کی وجہ سے وہ اپنے مو¿قف کو عوام میں اجاگر نہ کر سکے۔ وہ عہدساز شخصیت تھے۔ انکی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ شاید صدیوں تک نہ پُر ہو۔ وہ راہِ حیات کے عظیم شہسوار تھے
کچھ ایسے بھی لوگ اُٹھ جائیں گے اس بزم سے
ڈھونڈنے نکلو گے جنہیں مگر پا نہ سکو گے

ای پیپر-دی نیشن