ذرا سوچئے! …… سڑکوں پر تقریبات سے خلق خدا کی حق تلفی
گلزار ملک
بڑے شہروں کے اندر ایک دوسرے کا احساس اور پیار محبت دن بدن ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اب تو بس ہر طرف سے ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے ’’حد ہو گئی‘‘ لاہور شہر میں شادی بیاہ و دیگر تقریبات کے اہتمام کے لئے چلتی ٹریفک والی پر ہجوم سڑک کو بغیر کسی کو اطلاع دئیے کر کے ہر لحاظ سے خوب خوشی کا اظہار کرتے ہیں ایسی تقریبات کے لئے سڑک کے عین درمیان میں شامیانے سجائے جاتے ہیں سڑک مکمل طور پر ہر طرح کی چھوٹی بڑی ٹریفک کے لئے بند کر دی جاتی ہے۔ جس سے آمدورفت میں شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہاں تک کہ جس سڑک پر شامیانے لگے ہوتے ہیں وہاں سے پیدل چلنے والوں کے لئے بھی کوئی راستہ نہیں ہوتا اس دوران بہت ساری تقریبات میں اس عذاب کے باعث لڑائی جھگڑا بھی ہوتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ شہر لاہور کے پرانے علاقوں خاص کر کے جو لاہور دروازوں کے اندر واقع ہے وہاں پر ایسی سڑکوں کے اوپر شامیانے لگانا لوگوں کی مجبوری ہے۔ مگر دیگر علاقوں کے رہنے والوں کے لئے تو کوئی مجبوری نہیں ہے یہ صوتحال بہت سارے لوگوں کے لئے عذاب کا باعث بن رہی ہے اس طرح پوری سڑک پر شامیانے لگانے پر پابندی لگنی چاہئیے اور اس کے لئے مقامی مٹیرو کارپوریشن کے دفتر سے اجازت لینی چاہئیے وہ جتنی جگہ کا انتخاب کر کے دیں اور اسی دائرہ میں شامیانے لگائے جانے چاہئں تاکہ پیدل چلنے والوں کے مشکلات پیدا نہ ہوں۔ یاد رہے کہ اس دوران یہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایمبولینس بھی چیخ و پکارکرتی ہوئی راستہ تبدیل کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہے جتنی دیر تک اس مسئلہ کی طرف سنجیدگی سے غور اور سختی نہ کی گئی تو اس وقت تک اس مشکلات کا ازالہ ممکن نہیں۔
ان تقریبات میں ایک اور عذاب کا بھی شہریوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے اس دوران آتش بازی اور فائرنگ کا استعمال دل کھول کر سر عام کھلے میدان کیا جاتا ہے بعض تقریبات میں قابل اعتراض محفلیں بھی سجائی جاتی ہیں قانون نافذ کرنے والے ایسی تقریبات میں جانا اور ایسے افراد پر ہاتھ ڈالنا گناہ سمجھتے ہیں بلکہ یہاں پر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس کے بارے کوئی شہری شکایت کرے تو الٹا اطلا ع دینے والے کی ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے ان سڑکوں پر سرکاری چھٹی کے روز منچلے کرکٹ کھیلنے کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں یہ کام بھی شہریوں کیلئے عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ چھٹی کے دن خاص کر کے اتوار کے روز ہر چھوٹی بڑی سڑک سٹیڈیم کا نقشہ پیش کر رہی ہوتی ہے۔ اس موقع پر بھی شہریوں کے درمیان لڑائی جھگڑے ہر چھٹی پر معمول کا حصہ ہوتے ہیں یہ کام اگر طالب علم یا چھوٹے بچے کریں تو گزارہ ہو سکتا ہے مگر افسوس کہ بڑی عمر کے سمجھ دار افراد بھی کرکٹ کھیلنے کا شوق پورا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اس دوران گالیوں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے گلی محلوں کی سڑک پر ہونے والے اس کھیل سے آس پاس میں گھروں میں سوئے افراد بھی بے سکون ہو کر نیند سے اٹھ جاتے ہیں۔پنجاب حکومت کو چاہئیے کہ لاہور کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ سرکاری سطح پر شادی ہال بھی قائم کر کے جہاں پر غریب آدمی سڑک پر شامیانے لگانے کی بجائے شادی ہال میں اپنی تقریب منعقد کرے اورسڑکوں پر کرکٹ کے کھیل پر سختی سے پابندی لگائی جائے اور یہ لوگ سٹیڈیم میں چھٹی کے دن اپنا یہ شوق پورا کریں تو اس سے ھادثات سے بچا جا سکتا ہے ۔