وہ آج یوم تکبیر پر قوم کو مطمئن کریں یا اسکے غم و غصہ کا سامنا کریں
نوازشریف کی وارفتگی اور مودی کی الزامات کی بوچھاڑ‘ وزیراعظم نے دورہ بھارت سے کیا پایا؟
وزیراعظم میاں نوازشریف اپنے ہم منصب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے دوستی‘ خیرسگالی اور دوطرفہ خوشگوار تعلقات کے جواب میں ان سے پاکستان پر عائد کئے گئے پانچ نکاتی سنگین الزامات کی فہرست لے کر منگل کی شام ملک واپس آگئے۔ انکے دورہ¿ بھارت کے موقع پر بھارتی میڈیا‘ حکام اور خود بھارتی وزیراعظم مودی نے سفارتی ادب آداب اور پروٹوکول کو پس پشت ڈال کر جو جارحانہ طرزعمل اختیار کیا‘ اس سے بھارت کیلئے ریشہ خطمی ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کو سبق حاصل کرلینا چاہیے کہ انکی بھارت کے ساتھ دوستی کی یکطرفہ خواہش اور اس کیلئے اٹھائے گئے یکطرفہ اقدامات کے باوجود بھارتی لیڈران کا پاکستان کے ساتھ خبث باطن ختم نہیں ہو سکا جو ہمارے ساتھ بنیادی تنازعات کشمیر اور پانی پر بات کرنا تو ایک طرف‘ ان کا تذکرہ بھی گوارہ نہیں کرتے اور کسی خیرسگالی کے موقع پر بھی پاکستان کو مبینہ دہشت گردی کے حوالے سے رگیدنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ گزشتہ روز نوازشریف مودی ملاقات کے حوالے سے ”امن کی آشا“ کے داعی ہمارے ایک میڈیا گروپ کو بھی ایک بھارتی میڈیا گروپ کے ساتھ کئے گئے مشترکہ ٹاک شو میں بھارتی اینکر اور پروگرام کے بھارتی شرکاءکے ہاتھوں جو خفت اٹھانا پڑی اور جس جارحانہ انداز میں بھارتی مبصرین نے ممبئی حملوں کا راگ الاپتے ہوئے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کی اور حافظ محمدسعید کیخلاف کارروائی کا تقاضا کیا‘ اس سے اب اس میڈیا گروپ کو بھی اپنے امن کی آشا کے ایجنڈے کو لپیٹ کر پاکستان کے مفادات کی وکالت شروع کر دینی چاہیے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ نریندر سنگھ مودی نے بھارتی انتخابات میں اپنی پارٹی کی کامیابی کے بعد وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کو اسی طرح اپنی حلف برداری کی تقریب میں شمولیت کی دعوت دی جیسے میاں نوازشریف نے اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کیا تھا۔ من موہن نے تو میاں نوازشریف کی دعوت کو کوئی پذیرائی نہ بخشی اور الٹا پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی کو انتہاءتک پہنچا دیا مگر میاں نوازشریف نریندر مودی کی دعوت پر سر کے بل چلتے ہوئے بھارت جا پہنچے حالانکہ قوم کی غالب اکثریت انکے دورہ¿ بھارت کیخلاف تھی اور دفتر خارجہ نے بھی انہیں بھارت کا دورہ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اگر میاں نوازشریف اس موقع پر بھارتی صدر پرناب مکھرجی اور وزیراعظم مودی سے ملاقات کے دوران ان سے کشمیر اور پانی کے بنیادی تنازعات پر بات ہی کرلیتے تو اس سے کم از کم ملکی اور قومی مفادات کی وکالت تو ہو جاتی مگر انہوں نے بھارتی لیڈران کے روبرو خیرسگالی کے جذبے کے تحت نہ صرف بنیادی ایشوز پر بات کرنے سے گریز کیا بلکہ باہمی تعلقات کو اکتوبر 99ءسے جوڑنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا جبکہ انکے اس خیرسگالی کے جذبے کے جواب میں بھارتی وزیراعظم کو اتنی بھی توفیق نہ ہوئی کہ وہ پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے کی بھارتی روش سے ہی گریز کرلیتے۔ انہوں نے خیرسگالی کی اس ملاقات کو بھی پاکستان پر بے سروپا الزامات کے ذریعے ملبہ ڈالنے کیلئے استعمال کیا اور ملاقات شروع ہوتے ہی میاں نوازشریف کو باور کرانا شروع کر دیا کہ ہمیں ممبئی حملوں کے مبینہ ملزمان کیخلاف آپکی عدالتوں کی جانب سے کوئی فیصلہ نہ ہونے پر سخت تشویش ہے‘ آپ اس عدالتی کارروائی کو تیز کریں ‘پاکستان دہشت گردی کے تدارک کیلئے ہمارے ساتھ کئے گئے وعدے پورے کرے اور اپنی سرزمین بھارت کیخلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دے۔ اور تو اور انہوں نے افغان کٹھ پتلی صدر کرزئی کے حالیہ الزام کو جواز بنا کر ہرات میں بھارتی قونصل خانہ پر حملے کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈال دیا جبکہ اس ملاقات کے دوران ہی بھارتی میڈیا پر پاکستان کیخلاف مودی کے دہشت گردی کے الزامات کا اعادہ کرتے ہوئے منفی پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا جسے بعدازاں بھارتی سیکرٹری خارجہ سجاتا سنگھ نے اپنی پریس بریفنگ میں انتہاءکو پہنچایا جنہوں نے نوازشریف مودی ملاقات کا تذکرہ ہی ان الزامات سے شروع کیا جو ممبئی حملوں اور ہرات قونصل خانہ پر حملہ کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم مودی کی جانب سے عائد کئے گئے تھے۔ پھر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بے دلی کے ساتھ اس امر کی تصدیق کی کہ وزیراعظم مودی نے میاں نوازشریف کی دورہ¿ پاکستان کی دعوت قبول کرلی ہے مگر اسکی تاریخ کا ابھی تعین نہیں ہوا۔ انکی پریس بریفنگ سے جو دوسری بات سامنے آئی‘ وہ 20 ستمبر 2012ءکے معاہدے کی روشنی میں پاکستان اور بھارت کے مابین اقتصادی‘ ثقافتی روابط کو بڑھانے اور خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر رابطے جاری رکھنے کیلئے پاکستان بھارت وزراءاعظم کے اتفاق رائے کی ”نوید“ پر مبنی تھی۔ قوم کو توقع تھی کہ میاں نوازشریف اپنی پریس بریفنگ میں بھارتی صدر اور وزیراعظم کے ساتھ اپنی ملاقات کے موقع پر بھارتی الزامات کے جواب میں اپنے پیش کردہ مو¿قف سے ضرور آگاہ کرینگے اور یہ بھی بتائیں گے کہ انہوں نے بھارتی لیڈران کے سامنے کشمیر اور پانی کے تنازعات کو اٹھایا ہے یا نہیں‘ وہاں موجود میڈیا کے علاوہ پاکستانی قوم نے بھی میاں نوازشریف کی اس پریس بریفنگ کا اڑھائی گھنٹے تک انتظار کیا اور جب وہ پریس بریفنگ کیلئے آئے تو سنگین بھارتی الزامات کے جواب میں مودی‘ واجپائی اور دوسرے بھارتی لیڈران کے ساتھ خیرسگالی کے جذبات کے اظہار کے سوا انہوں نے کوئی دوسرا لفظ ادا نہ کیا اور سوالوں کا جواب دیئے بغیر ہی واپس چلے گئے جس کے بارے میں بھارتی میڈیا پہلے ہی پروپیگنڈہ کررہا تھا کہ وزیراعظم پاکستان کو نریندر مودی کے ساتھ انکی ملاقات کے حوالے سے جو پریس نوٹ دیا جائیگا‘ وہ پریس بریفنگ میں صرف اسے ہی پڑھنے پر اکتفا کرینگے اور کسی سوال کا جواب نہیں دینگے۔ کسی پاکستانی لیڈر کی جانب سے بھارتی لیڈران کے تلخ و ترش لہجے اور پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کے باوجود منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر واپس آجانے کو نرم سے نرم الفاظ میں بھی دشمن کی دیدہ دلیری کے آگے پسپائی اختیار کرنے سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اسی تناظر میں آج قوم ان سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ وہ ملک کے ازلی مکار دشمن کے ساتھ پاکستان کے وقار اور مفادات کا کیا سودا کرکے آئے ہیں اور آیا وہ کشمیریوں کی قربانیوں سے لبریز طویل اور صبر آزما جدوجہد کا سفر کھوٹا کرنے اور اس جدوجہد پر دہشت گردی کا لیبل لگوانے بھارت گئے تھے۔ کیا میاں نوازشریف کے اس مو¿قف کو بھارت کے ساتھ یکطرفہ تعلقات سے متعلق ان کا ذاتی ایجنڈہ سمجھا جائے کہ ہم باہمی اعتماد اور اقتصادی روابط بڑھانے کیلئے پرعزم ہیں اور اس تناظر میں انکی بھارتی صدر اور وزیراعظم سے ملاقات بہت مثبت رہی ہے۔ وہ واجپائی کے ساتھ کئے گئے لاہور ڈیکلریشن کو آج بھی پلے باندھے بیٹھے ہیں جبکہ اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور ممبئی حملوں کے حوالے سے پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کے الزامات کا سلسلہ بھارتی حکومت کی تبدیلی کے باوجود تھمنے میں نہیں آرہا۔
میاں نوازشریف کے ساتھ ملاقات کے موقع پر بھارتی وزیراعظم مودی کی باڈی لینگویج اور پھر سفارتی ادب آداب کو تج کر انکی جانب سے وزیراعظم پاکستان کے ساتھ خیرسگالی کی ملاقات میں بھی پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی حکمران بی جے پی کی پاکستان کے ساتھ تعلقات کی کیا پالیسی ہو گی اور خود مودی دورہ¿ پاکستان کیلئے میاں نوازشریف کے ساتھ کیا گیا وعدہ نبھائیں گے یا اپنے پیشرو منموہن کی طرح انہیں ٹھینگا دکھائیں گے جس کیلئے انکے پاس جواز اور بہانے پہلے ہی سے موجود ہیں۔ میاں نوازشریف اب ملک واپس آچکے ہیں اس لئے انہیں آج بطور خاص یوم تکبیر کی تقریب میں شریک ہو کر بھارتی الزامات کے حوالے سے قوم کا تجسس دور کرنا چاہیے اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اپنی حکومتی پالیسیوں کی کھل کر وضاحت کرنی چاہیے۔ انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یوم تکبیر پاکستان کی سالمیت کو چیلنج کرنیوالے اس موذی دشمن کو دوٹوک جواب دینے کیلئے ہی منایا جاتا ہے جس کے روبرو میاں نوازشریف گزشتہ روز ایٹمی پاکستان کی کمزوری کا تاثر دے آئے ہیں۔ اگر وہ ہماری شہ رگ کشمیر پر پوری ڈھٹائی کے ساتھ قابض اور تسلط ختم کرنے کے بجائے پاکستان کی سالمیت ہی کے در پے ہے تو کیا یوم تکبیر پر ہمیں اپنا دوسرا گال بھی تھپڑ کھانے کیلئے اسکے سامنے پیش کر دینا چاہیے۔ پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے سربراہ اور کشمیری ہونے کے ناطے میاں نوازشریف سے قوم کو ایسی توقعات ہرگز نہیں تھیں‘ انہیں بھارت کے ساتھ تعلقات سے متعلق اپنی پالیسیوں اور اقدامات پر قوم کو بہرصورت مطمئن کرنا چاہیے‘ بصورت دیگر وہ اپنے اقتدار کو قومی غم و غصہ کی بھینٹ چڑھنے سے نہیں بچا پائیں گے۔