رانا ریزارٹ میں یادِ ماضی کی کھلتی گرہیں
رانا شوکت محمود سے بہت دیرینہ نیازمندی ہے۔ پیپلز پارٹی کے جیالا کلچر میں بھی وہ شرافت کی علامت بنے رہے مگر پارٹی کے فلسفہ، اصولوں اور بھٹو لیگیسی کی وکالت کرتے ہوئے انہوں نے اپنے جیالے پن میں کبھی کمی نہیں آنے دی البتہ وہ جارح جیالے سے زیادہ مودب جیالا نظر آتے تھے۔ 80ءکی دہائی میں ایم آرڈی کی تحریک بحالی ¿ جمہوریت کے دوران پیپلز پارٹی پنجاب کی قیادت انہی کے ہاتھ میں تھی چنانچہ بینظیر بھٹو کی جلاوطنی کے باعث پیپلز پارٹی کے اندر انہوں نے کبھی فعال قیادت کا خلا پیدا نہ ہونے دیا۔ پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے علاوہ ایم آرڈی کے اکثر اجلاس بھی کینال روڈ پر واقع رانا شوکت محمود کی اقامت گاہ پر ہی ہوا کرتے تھے چنانچہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے لئے میرا بھی ان کے گھر آنا جانا لگا رہا اور اس طرح ان سے دوستی کا ناطہ بھی جڑ گیا۔ کبھی ہماری بالمشافہ ملاقات نہ ہوتی تو ٹیلی فونک رابطہ ضرور ہو جاتا۔ بھٹو مرحوم کے دور حکومت میں رانا شوکت محمود پنجاب کابینہ میں شامل تھے اور وزارتِ مال کا قلمدان ان کے پاس تھا مگر بھٹو حکومت کے خاتمہ کے بعد میں نے ان کے رہن سہن کا جائزہ لیا تو مجھے یہی اندازہ ہوا کہ انہوں نے دھن، دھونس اور رعب دبدبے والے پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں بھی شریفانہ زندگی بسر کی ہے۔ کینال روڈ والا ان کا گھر ان کی ذہنی تراوت اور آرٹسٹک سوچ کی عکاسی کرتا نظر آتا تھا۔ گھر کے ہال نما ڈرائنگ روم کو پنجاب کے دیسی کلچر سے مزین کیا گیا جس کی دیواروں اور چھت پر لکڑی سے کی گئی ”کشیدہ کاری“ ان کے تخلیقی ذہن کا ہی شاہکار نظر آتی تھی۔ 1986ءمیں بینظیر بھٹو جلاوطنی ترک کرکے ملک واپس آئیں تو لاہور میں ان کے اولین ٹھکانوں میں رانا شوکت محمود کا گھر بھی شامل تھا۔ مخدوم فیصل صالح حیات کا شادمان والا گھر اور سردار فاروق لغاری کا ایف سی سی گلبرگ والا وسیع و عریض لان پر مشتمل گھر سب سے پہلے بینظیر بھٹو کی قیام گاہ بنا، پھر رانا شوکت محمود اور پھر ترجیحات بدلنے کے مراحل میں گلزار خاں کا گھر محترمہ کے قیام کے لئے مخصوص ہوا، ایک آدھ بار شیخ رفیق احمد کے گھر فرید کوٹ روڈ پر بھی ان کا ڈیرہ لگا اور ایم آرڈی کے اجلاس میں شرکت کے لئے ان کا ملک حاکمین خاں، ملک محمد قاسم اور جمہوری پارٹی کے میر محمد اکرم کے گھر بھی ایک دو بار آنا جانا ہوا۔ چنانچہ ایم آرڈی کی تحریک کے حوالے سے یہ سارے مقامات سیاسی تاریخ میں درج ہونے ضروری ہیں۔ رانا شوکت محمود کی اقامت گاہ کی انفرادیت ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے ہی نظر آتی تھی اور وہ پارٹی کی صوبائی تنظیم میں ڈسپلن بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ہی قائم کیا کرتے تھے ورنہ جیالا کلچر میں ڈسپلن کی پابندی کرانا عملاً ناممکنات میں شامل ہوتا ہے۔ بینظیر بھٹو کے چیئرپرسن بننے کے بعد پیپلز پارٹی کے تاسیسی کنونشن کے لئے قذافی سٹیڈیم کے کلچرل کمپلیکس کا انتخاب بھی رانا شوکت محمود نے اس پارٹی کے صوبائی صدر کی حیثیت سے کیا تھا جس میں ڈھول ڈھمکے والے اس پارٹی کے جیالا کلچر کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط بھی رانا شوکت محمود کی تنظیمی صلاحیتوں کو آشکار کرتا نظر آتا تھا۔ مگر اقتدار کی منزل تک پہنچتے پہنچتے محترمہ بینظیر بھٹو نے ایسے شاندار منتظم کو عملاً نظرانداز کر دیا اور وہ اس شعر کے مصداق محترمہ کی رفاقت سے پیچھے ہٹتے گئے کہ
جو بھی آوے، تیرے پہلو میں جگہ پاوے ہے
میں کہاں تک تیرے پہلو سے سرکتا جاﺅں
بینظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو ان کی غیر موجودگی میں ان کی پارٹی کو متحرک رکھنے والے رانا شوکت محمود کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ انہیں پارٹی کی ٹکٹ دینا بھی گوارا نہ کیا گیا اور پھر انہیںاین آئی آر سی کا چیئرمین بنا کر سیاست سے عملاً باہر دھکیل دیا گیا۔ میرے رابطے بھی ان کے ساتھ ان کی چیئرمین این آئی آر سی کی حیثیت تک ہی برقرار رہ سکے۔ اسی دور میں انہوں نے گلبرگ میں ایک ہوٹل قائم کرکے جہاں اپنے کاروباری سفر کا آغاز کیا وہیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بھی دھاک بٹھانا شروع کر دی مگر اس کاروبار میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا سکہ نہ جم پایا۔ سیاست سے وہ پہلے ہی آﺅٹ ہو چکے تھے۔ ہوٹل کے بزنس میں ناکامی نے انہیں دوستداریوں سے بھی لاتعلق کر دیا۔ ان سے ملاقاتوں اور رابطوں میں وقفہ ہوا تو یہ سلسلہ طولانی ہوتا چلا گیا۔ ایک دن ان کی جانب سے ہیڈ بلوکی میں ان کا ”فش فارم“ قائم ہونے کی اطلاع ملی اور ساتھ ہی فش فارم آنے کی دعوت بھی۔ یہ 90ءکی دہائی کے اختتامی مراحل تھے۔ بچوں کو ہمراہ لے کر فش فارم پہنچا تو رانا صاحب سے وہاں ملاقات نہ ہو پائی کیونکہ وہ کسی اور کام سے کہیں اور نکل گئے تھے۔ بہرحال یہ فش فارم بھی ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرتا نظر آیا۔ اس کے بعد رانا صاحب سے رابطے میں اتنا طویل وقفہ پڑ گیا کہ دیرینہ وابستگی کی یادیں بھی محو ہونے لگیں۔
گزشتہ ہفتے بچوں کا اصرار بڑھا کہ ہیڈ بلوکی میں ”رانا ریزارٹ“ کے بہت چرچے ہیں۔ وہاں جانا چاہئے۔ میں نے اپنے ایک اور دیرینہ دوست بھائی پھیرو کے سینئر صحافی گلزار ملک صاحب سے رابطہ کیا جنہوں نے کمال مہربانی سے ہمارے ہیڈ بلوکی اور ”رانا ریزارٹ“ کے مشاہداتی دورے کا انتظام کر دیا۔ وہاں پہنچنے تک میرے علم میں نہیں تھا کہ یہ ریزارٹ رانا شوکت محمود ہی کا شاہکار ہے جو انہوں نے فش فارم کو توسیع دے کر تقریباً دس مربع کی اراضی پر قائم کیا ہے۔ گلزار ملک صاحب اور ان کے ساتھیوں حاجی محمد رمضان صدر کسان بورڈ بھائی پھیرو اور ملک عبدالحفیظ شاہد صاحب صدر پریس کلب بھائی پھیرو سے گفتگو کے دوران ہی منکشف ہوا کہ رانا شوکت محمود کا فش فارم ہی اب رانا ریزارٹ بن چکا ہے جو اس وقت رانا ریزارٹ کے آگے نکل کر ”رانا سفاری پارک“ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس میں داخل ہوتے ہی ایک عجیب ذہنی طراوت کا احساس ہوا۔ احمد ندیم قاسمی کے شعر ذہن پر حاوی ہوتے نظر آئے
شام کو صبح چمن یاد آئی
کس کی خوشبوئے بدن یاد آئی
یاد آئے تیرے پیکر کے خطوط
اپنی کوتاہی ¿ فن یاد آئی
نجی سطح پر یہ پارک رانا شوکت محمود کی تخلیقی صلاحیتوں کا نکتہ¿ عروج نظر آتا ہے۔ حسنِ اتفاق رانا صاحب سے یہاں ملاقات بھی ہو گئی، جیسے
عالم خواب میں دکھائے گئے
کب کے ساتھی کہاں ملائے گئے
سیاست کی مکاریوں سے نالاں رانا شوکت محمود رانا سفاری پارک میں کتھارسس کے عمل سے گزرتے نظر آئے۔ اس پارک کا ایک ایک مقام رانا صاحب کی تخلیقی صلاحیتوں کی گواہی دے رہا ہے جہاں شرف انسانیت کے ساتھ ساتھ خواتین کے تقدس کی پاسداری کا بطور خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ درختوں کی انسانوں اور جانوروں کے روپ والی نقاشی، وسیع و عریض جنگل میں قلانچیں بھرتے ہرن، اپنی اہمیت کا احساس دلاتے شتر مرغ اور آزادانہ گھومتے پھرتے دوسرے جنگلی جانور، سبحان تیری قدرت۔ ریزارٹ میں قائم ریسٹورنٹ، رہائشی ہٹس اور دوسرے مقامات پر لکڑی اور بانسوں کے استعمال کی مشّاقی اور ان پر کی گئی کشیدہ کاری نے رانا صاحب کے گھر کے ڈرائنگ روم میں ہونے والی نشستوں کی یاد تازہ کر دی۔ میرے استفسار پر رانا صاحب نے اس مجسمہ سازی اور کشیدہ کاری کے معاملہ میں این سی اے کو جہالت کا سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہوئے ہرگز دقت محسوس نہ کی اور کہنے لگے یہ این سی اے والوں کے بس کا کام نہیں ہے۔ یہ کس انسانی ہاتھ اور ذہن کا شاہکار ہے، اس راز کو آشکارا کرنا انہوں نے مناسب نہ سمجھا اور میں نے بھی زیادہ کریدنے سے گریز کیا۔ بہرحال پنجاب بھر سے سکولوں اور کالجوں کے ٹروپس کی صورت میں عملاً روزانہ ہزاروں باشندے اس سفاری پارک میں آتے ہیں مگر مجال ہے کبھی کہیں بدنظمی کا کوئی ماحول بنا ہو۔ سرکاری سرپرستی میں قائم باغ، پارک، سیرگاہیں اور لاہور کا چڑیا گھر تک اس سفاری پارک کے حسنِ انتظام کے آگے ہیچ نظر آتا ہے۔ اس پارک میں آ کر انسان وقتی طور پر دنیاوی بکھیڑوں اور جھنجھٹوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے اور یہی اس کی خاصیت و اہمیت ہے۔رانا صاحب نے اپنی پیرانہ سالی کو آبرومندی سے گزارنے کا وسیلہ خوب نکالا ہے۔ اس میں ان کا اپنا کتھارسس بھی ہو رہا ہے اور انسانیت کی بھلائی کا اہتمام بھی۔ کاش حکمرانوں کو بھی ایسی کوئی توفیق ہو جائے کہ وہ اپنے گوناگوں مسائل کی گھٹن میں دبے عوام کے لئے بھی ایسے تفریحی مقامات کا جابجا اہتمام کر پائیں۔ برونائی دارالسلام کا جوارڈنگ پارک حکمرانوں کی جانب سے عوام کے کتھارسس کے ایسے اہتمام کا ہی شاہکار ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو تو بھائی پھیرو سے ہیڈ بلوکی تک جانے والی سڑک کے پانچ چھ کلو میٹر کے ٹکڑے کو بھی درست کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ پھر موٹر وے، میٹرو بس اور اورنج لائن پر تنقید کے راستے کیوں نہیں کھلیں گے۔