حافظ سعید پر سنگ زنی :ہدف پاکستان ہے
یہ خواجہ آصف کس کی زبان بول رہے ہیں وہ مودی کے لہجے میں یہ کون سے الزام دہرارہے ہیں وہ حافظ سعید کو کیوں نشانہ بنار ہے ہیں،بے جرم وخطا ،حافظ صاحب کو پاکستان سے محبت اوروفا کی سزاکیوں دی جارہی ہے پاکستان کا وزیردفاع ،یہ کیسا دفاع کررہا ہے یہ تو امریکہ اوربھارت کی تیارکردہ فرد جرم عائد کررہا ہے یہ کالم نگار ایک چیز واضح کرنا چاہتا ہے خواجہ آصف نے حافظ سعید کو نہیں پاکستان کو نشانہ بنایا ہے خدا گواہ ہے ان کا یہ الزام حافظ سعید اورانکے ساتھی پاکستانی سماج کیلئے خطرے کا باعث بن سکتے ہیںسوفیصد لغو اوربے بنیاد ہے ۔
میونخ کی سکیورٹی کانفرنس میںاس کالم نگار کوبھی مدعو کیا گیا تھا لیکن اپنے جنت آشیانی والد رانامحمد اشرف خاں کی بگڑتی ہوئی حالت کی وجہ سے معذرت کرلی اور میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں شریک نہ ہوسکا ،کاش ، اے کاش یہ کالم نگار وہاں موجود ہوتا اورجناب خواجہ آصف کے لغواوربے بنیاد الزامات کو اسی سٹیج پر کھڑے ہوکر رد کرتا اوردنیا پر واضح کرتا کہ اللہ کے نیک بندے حافظ سعید کاکسی قسم کی دہشت گردی یاانتہا پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے ساری زندگی انہوں نے درس و تدریس میں بسر کی ہے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا ذاتی آرام و سکون تج کرکے غریبوں اورمسکینوں کی مدد کیلئے دن رات مصروف عمل ہیں یہی ان کا جرم ہے اسی وجہ سے انہیں دہشتگردوں کی درجہ بندی میں شامل کرنے والے فورتھ شیڈول کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔
کاش خواجہ آصف نے یہ نہ کہاہوتا کہ حافظ سعید کو قومی مفاد میں نظربندکیا گیاہے اوریہ کہنے کی کیاضرورت تھی کہ یہ قانون سماج دشمن عناصر اور معاشرے کیلئے خطرہ بننے والے افراد کےخلاف استعمال کیاجاتا ہے ۔جناب خواجہ صاحب حافظ سعید کو بھارتی درندگی کا شکار مظلوم کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی سزا دی جارہی ہے ۔پاکستان کو نہیں ،ہندوستان کو حافظ سعید سے خطرہ تھا ،آپ ہیں کہ سب سے بڑے پاکستانی کونشانے عبرت بنانے پر تلے ہوئے ہیں اسلام اورپاکستان سے محبت کو دہشتگردی بنایاجارہا ہے وہ جو ہمارے دشمنوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بنا ہوا تھا اس پر سنگ زنی کی جارہی ہے ۔
حیرت تو اس بات پر ہے کہ جناب وزیراعظم نواز شریف بھی سب کچھ بھلا چکے ہیں کہتے ہیں کہ اقتدار کے بے رحم کھیل میں شامل کھلاڑی ،سب رشتے ناطے بھلا دیا کرتے ہیںاورآج یہی ہورہا ہے جناب وزیراعظم حافظ سعید تو آپکے والد گرامی قدر میاں شریف کے ایسے دوستوں میں شامل تھے جن کا ذکر میاں شریفؒ آخری لمحوں تک بڑی محبت اورشفقت سے کرتے رہے اورآج پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف انہیں سماج دشمن ،نہیں جناب صرف سماج دشمن نہیں بھارت کی زبان بولتے ہوئے دہشتگرد بھی قرار دے رہے ہیں۔یہاں صرف خواجہ آصف کے اپنے مشہور زمانہ قول ہی دہرایاجاسکتا ہے کہ
کوئی شرم ہوتی ہے ،کوئی حیا ہوتی ہے
خواجہ آصف نے بڑے فخر سے بتایا کہ دہشت گردوں کی مدد کرنے والوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے واضح رہے کہ ان کا اشارہ حافظ سعید کی طرف ہی تھا ۔کیونکہ جنوری 2017میں حافظ سعید کو حراست میں لےکر نظر بند کر دیا تھا۔بھارت تواتر سے الزام لگاتا رہا ہے کہ نومبر 2008 میں بمبئی میں ہونےوالے دہشتگرد منصوبے کے خالق حافظ سعیدتھے جسکے بارے میں تاحال کوئی ٹھوس ثبوت بھارت پیش نہیں کر سکا تھا اورخواجہ آصف کے بیان سے بڑھ کر کوئی ٹھوس ثبوت حافظ سعید کے خلاف کیا پیش کیاجا سکتا ہے حافظ سعید لشکر طیبہ کے بانی تھے جسے بھارت ممبئی میں ملوث قرار دیتا رہا ہے ۔خواجہ آصف نے انکشاف کیا کہ لشکر طیبہ اور جماعت الدعوة،پاکستان اور پاکستان سے باہر بالواسطہ دہشتگردی میں ملوث رہی ہیں۔خواجہ صاحب آپ کوئی نئی بات نہیں کررہے آپ اپنے بھارتی ہم منصب منوہرپاریکر کی زبان بول رہے ہیںوہ بھی یہی کہتا ہے کہ دہشتگردی کے سارے ڈانڈے راولپنڈی ،اسلام آباد اوراب مرید کے سے جا ملتے ہیں ۔
اسکے بعد خواجہ آصف نے صرف خانہ پری کیلئے انتہاپسندی اور دہشتگردی کے بارے مہذب دنیا خاص طورپر یورپ کی الگ تھلگ رہنے کی حکمت عملی کوہدف تنقید بناتے ہوئے اپنے فرمودات کومتوازن بنانے کی کوشش کی انہوں نے سختی سے'اسلامی دہشتگردی ' کی اصطلاح استعمال کرنے کی شدیدمذمت کرتے ہوئے کہا کہ 'دہشتگردی کسی ایک مذہب سے منسلک نہیں ہے۔ دہشت گرد مسلم، عیسائی، ہندو یا بدھ مت کا پیرو کار نہیں ہوتا وہ صرف دہشت گرد ہوتا ہے۔'
خواجہ آصف نے اعتراف کیا کہ 'ماضی میں ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں یہ غلطیاں دراصل بھارت کے وہ الزامات ہیں جن کو آپکے اعترافات نے پاکستان کے خلاف ایک نئی چارج شیٹ مہیا کردی ہے جس کا نتیجہ ہمیں آنےوالے چند مہینوں میں ،نہیں جناب اگلے چند ہفتوں میں بھگتنا پڑ سکتا ہے خواجہ صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ اب ہم دہشتگردی کےخلاف پرعزم ہیں اور ہماری فوج پچھلے کئی سالوں سے دہشتگردی کےخلاف بہت اعلیٰ کار کردگی دکھا رہی ہے۔ میں عالمی برادری کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم مستقبل میں بھی ایسا ہی کرتے رہیں گے۔ 'جماعت الدعوةکے ترجمان یحییٰ مجاہد کہتے ہیں کہ معاشرے کیلئے خطرہ حافظ سعید نہیں حکومتی صفوں میں موجود کچھ لوگ ہیں۔
پرانے وقتوں میں ہمارے شہروں اورقصبوں میں غنڈہ گردی اورلڑائی جھگڑوں کے عادی مجرموں کو ’دس نمبری ‘بدمعاش کے الفاظ سے یاد کیاجاتا تھا جیل ان لوگوں کا سسرال ہوتی تھی وہاں آنا جانا ان کامعمول ہوتا تھا عام حالات میں بھی روزانہ تھانے حاضری لگوانا ہوتی تھی تاکہ پولیس ان شرپسندوں کی نقل وحمل پر آسانی سے نگاہ رکھ سکے یہ لوگ دراصل اسی فورتھ شیڈول میں شامل ہوتے تھے جسکے تحت حافظ سعید جیسا پاکباز شخص اپنے ساتھیوں سمیت نظربند ہے لکھنے کو تو بہت کچھ لکھااورکہاجاسکتا ہے لیکن مرشد کامل ،رومی کشمیر حضرت میاں محمد بخشؒ نے فرمایا ہے
عاماں بے اخلاصاں اندر ،خاصاں دی گل کرنی
مِٹھی کھیر پکا محمدؒ،کتیاں اگے دھرنی
دسمبر 2016کے دوران وزیراعظم نواز شریف اورجناب حافظ سعید کے درمیان پیغامات کے تبادلوں کی تمام تفصیلات کا اس کالم نگار کو بخوبی علم ہے لیکن قومی سلامتی کے تقاضے ان حساس اُمور کو برسرعام سامنے لانے سے روک رہے ہیں ۔حیرتوں کی حیرت تو اس پر ہے کہ خواجہ آصف کو شائد علم نہیں کہ اس وقت وہ تاریخ کی غلط سمت کھڑے ہیںاگر ڈسٹرکٹ کونسل سیالکوٹ کی چیئرمین حناارشد وڑائچ کے انتخاب کے اصل محرکات کو بھی سامنے لایاجاسکتا ہے جس سے سیالکوٹ کے جانثاران نواز شریف بخوبی آگاہ ہیں کون نہیں جانتا کہ محترمہ حنا ارشد کا سیاست اور مسلم لیگ (ن) سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا وہ توخدا بھلا کرے ان والد گرامی ارشدجاوید وڑائچ کا جنہوں نے اچھی سودے بازی کرکے مخلص لیگی کارکن کو شکست دےکر اپنی صاحبزادی کو ضلع کونسل سیالکوٹ کاچیئرمین منتخب کرالیا یہ حقیقت ضلع سیالکوٹ میں زبان زد عام ہے کہ لاکھوں نہیں کروڑوں دان کرکے اقتدار کی دیوی کو رام کیا گیا ۔
تاریخ کا ادنی طالب علم ،یہ کالم نگار خواجہ صفدر کا ہمیشہ سے عاشق زار رہا ہے کہ مادر ملت فاطمہ جناح اور جنرل ایوب خان کے درمیان ہونیوالے تاریخی صدارتی معرکے میں خواجہ صفدر مادر ملت کے سپاہی تھے یہ وہ دور زوال تھا جب ذوالفقار بھٹو جنرل ایوب کو اپنا ’ڈیڈی‘ قرار دیتے ذرانہ شرماتے تھے وہ محترمہ فاطمہ جناح کےخلاف جنرل ایوب کی انتخابی مہم کے انچارج اور چیف پولنگ ایجنٹ تھے اسکے بعد نواب آف کالاباغ کی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی خواجہ محمد صفدر تھے اس دور کی چند کہانیاں لاہور کے ’آتش فشاں‘ منفرد مزاج اخبار نویس منیراحمد منیر نے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی سید مرید حسین کے طویل انٹرویو پر مبنی کتاب’اَن کہی سیاست‘ کے صفحات 92تا95میں بیان کی ہیں۔یہ تفصیلات حساس قومی اُمورکے زمرے میں نہیں آتیں لیکن انہیں یہاں دہرانا اس کالم نگار کو گوارا نہیں کہ سماجی اخلاقیات اورروایات ہرحال میں مقدم رکھنا چاہتا ہوں ۔
حرف آخر یہ کہ سابق سپہ سالار جنرل راحیل شریف خاموشی سے اپنے عملے سمیت سعودی عرب منتقل ہوچکے ہیں جہاں وہ خادم حرمین شرفین کے دفاعی مشیر کی خدمات انجام دیں گے ۔