اللہ تعالیٰ جناب شیخ رشید احمد صاحب کو عمر خضرعطا کرے کیونکہ وہ ہمارے سیاسی افق کے ایک درخشندہ ستارے ہیں۔ ہمارے مایوس کن سیاسی ماحول میں موصوف ہی کی وجہ سے رونق قائم ہے ۔مثلا جناب نے بجٹ پر فرمایا”جہاں پیپلز پارٹی پانچ سالوں میں پہنچی ن لیگ15دنوں میں ہی پہنچ گئی ہے۔ میاں صاحب کو کسی بیرونی سازش کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے وزن سے خود ہی گریں گے“ ماشاءاللہ اس سے جامع تبصرہ بھلا کیا ہوسکتا ہے۔ میرے ایک دوست نے نوائے وقت میں یہ بیان پڑھا تو بول اٹھا: ”پاکستان میں اگر کوئی تبدیلی آئی تو اس شخص کی وجہ سے آئیگی“ اور ہاں”یہ شخص ہماری تاریخ کا چوتھا شیخ ثابت ہوگا“ پہلے فقرے پر تو تبصرہ قبل از وقت ہے لیکن جہاں تک دوسرے فقرے کا تعلق ہے وہ نہ صرف قابل غور ہے بلکہ بہت گہری سوچ کا متقاضی ہے یعنی ہماری تاریخ کا ”چوتھا شیخ“۔
پاکستان کی 65سالہ تاریخ پر اگر غور کیا جائے تو یہ ساری کی ساری تین اہم نقاط کے گرد گھومتی ہے اور وہ ہیں اول: تخلیق پاکستان ۔دوم: سقوط مشرقی پاکستان اور سوم: مسئلہ کشمیر۔ باقی جو کچھ پاکستان میں ہوا ہے یا ہو رہا ہے وہ بالواسطہ یا بلا واسطہ انہی واقعات و سانحات کی وجہ سے ہوا ہے۔ پاکستان میں جنگیں ہوئیں۔ مارشل لاءآئے۔ نئی حکومتیں بنیں۔ نئی پالیسیاں سامنے آئیں۔ دہشت گردی بڑھی۔ ان سب میں کہیں نہ کہیں ان سانحات کی روح موجود رہی بدیگر الفاظ اگر یہ تین اہم واقعات ہماری تاریخ سے نکال دئیے جائیں تو ہماری تاریخ ختم ہو جاتی ہے۔ معزز قارئین حیران کن بات یہ ہے کہ یہ تینوں واقعات تین مختلف شیخ صاحبان کی وجہ سے ظہور پذیر ہوئے اور مزید حیران کن بات یہ ہے کہ تینوں کا شجرہ نسب ہندوﺅں سے ملتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ کا پہلا اہم واقعہ ”تصور پاکستان“ تھا جس کے خالق شاعر مشرق علامہ اقبالؒ تھے۔ گو تصور پاکستان کو عملی جامہ پہنانے والے دوسرے لوگ تھے لیکن اگر تصور ہی نہ ہوتا تو عملی جامہ کس کو پہنایا جاتا اور یہ ہم سب جانتے ہیں کہ علامہ محمد اقبالؒ کے جد امجد کشمیری پنڈت تھے۔ علامہ صاحب کے غالباًدادا سہاج رام سپرو کشمیری برہمن تھے اور علامہ صاحب کے والد محترم شیخ نور محمد ”شیخ“ تھے ۔یہ ہماری تاریخ کے پہلے ”شیخ “تھے۔ پاکستان کی تاریخ کا دوسرا اہم واقعہ جو پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی شروع ہوا وہ تھا مسئلہ کشمیر اور اسکا ذمہ دار تھا ”شیخ “محمد عبد اللہ تھاجسے کسی زمانے میں” شیر کشمیر “بھی کہا جاتا تھا۔ اسکی تفصیل بعد میں۔ تیسرا اہم سانحہ سقوط مشرقی پاکستان تھا اور اسکا ذمہ دار” شیخ“ مجیب الرحمن تھا۔ ”شیخ “ صاحب نے جو کچھ کیا وہ تو ہم جانتے ہیں لیکن انکا ذاتی پس منظر وہ نہیں جو عام طور پر کتابوں میں لکھا گیا ہے۔ 1972میں ایک مضمون غالباً کسی بھارتی رسالے کے توسط سے سامنے آیا تھا وہ بڑا حیران کن تھا۔
واقعہ اس طرح ہے کہ بیسیویں صدی کی ابتداءمیں کلکتہ کورٹ میںچاندی داس نامی ایک مشہور وکیل تھا۔ ایک نوجوان بنگالی شیخ لطف الرحمن اسکا منشی تھا۔ چاندی داس کی گوری بالا داس نام کی ایک بیٹی تھی۔ یہ لڑکی اپنے والد کے ایک انڈر ٹریننگ نوجوان وکیل ارون کمار چکروتی کے عشق میں گرفتار ہوئی اور ناجائز تعلقات کی وجہ سے 1920میں اسکے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جسکا نام دیوداس چکروتی رکھا گیا لیکن ارون کمار چکروتی نے گوری بالا سے شادی کرنے اور بچے کو اپنانے سے انکار کر دیا کیونکہ اسکا تعلق اونچی ذات سے تھا۔ چاندی داس نے مجبور ہوکر اپنی بیٹی کی شادی شیخ لطف الرحمن اپنے بنگالی منشی سے کر دی اور اسے کورٹ میں سرکاری ملازمت دلادی۔ گوری بالا داس مسلمان ہو گئی اور اسکا نیا نام ساحرہ بیگم رکھا گیا۔ دیوداس چکروتی کا نام تبدیل کرکے شیخ مجیب الرحمن رکھ دیا گیا۔ اس حقیقت کا انکشاف بیان حلفی نمبر118 مورخہ 10-11-1923 رو برو عدالت سٹی مجسٹریٹ کلکتہ روبرو داروغہ کورٹ عبد الرحمن شفاعت پولیس سٹیشن ونداریہ ضلع باریسال اور انیل کمار داروغہ کورٹ ضلع باریسال کے ذریعے سے ہوا۔ بعد میں میرے دوست کرنل (ر) مکرم خان نے جب اس موضوع پر ریسرچ کی تو ان کی ”فائنڈنگ“ بھی یہی تھی۔ تاریخ دان اس موضوع پر مزید روشنی ڈال سکتے ہیں۔
جہاں تک شیخ محمد عبد اللہ کا تعلق ہے وہ سری نگر کے قریب ”صورا“ نامی گاﺅں میں 5دسمبر1905 کوپیدا ہوا۔ دادا کا نام پنڈت راگھو رام کول تھا جو شالوں کا کاروبار کرتا تھا۔ یہ شخص1890میں کشمیر کے ایک بزرگ شیخ عبد الرشید بلخی سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گیا۔ ”شیخ “صاحب کے والد کا نام ”شیخ “محمد ابراہیم تھا۔ ”شیخ “محمد عبد اللہ کا بچپن بہت غربت میں گزرا لیکن والدہ کے شوق کی وجہ سے مکتب سکول سے تعلیم شروع کرکے اسلامیہ کالج لاہور اور علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کی ۔ وہاں اسکا تعلق تحریک آزادی سے ہوا۔ 1930میں تعلیم مکمل کرکے جب سری نگرپہنچا تو کشمیر کے کچھ اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ساتھ ملکر کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کو مجبور کیا کہ کشمیر اسمبلی میں مسلمانوں کو زیادہ نمائندگی دی جائے۔ اپنی تحریک کو موثر بنانے کے لیے آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس کے نام سے ایک سیاسی پارٹی قائم کی۔ چوہدری غلام عباس جوایک بہت ہی پرجوش کشمیری نوجوان تھاپارٹی کا سیکرٹری جنرل بنا۔ جیسے جیسے پارٹی مقبول ہوئی شیخ صاحب کے تعلقات پنڈت نہر واور گاندھی سے قائم ہوئے۔ انکے زیر اثر شیخ صاحب نے پارٹی کو ”لبرل“ بنانے کی کوشش کی جسکی چوہدری غلام عباس اور کچھ اور ساتھیوں نے مخالفت کی۔ لہٰذا شیخ صاحب نے یہ پارٹی چھوڑ کر 1939میں آل جموں اینڈ کشمیر نیشنل کانفرنس کے نام سے نئی پارٹی قائم کر لی جس میں ہندوﺅں اور سکھوں کو بھی نمائندگی دی گئی۔
1944 میں شیخ محمد عبد اللہ نے قائداعظم کو مسلمانان ہند کا غیر متنازعہ لیڈر قرار دیا اور ان سے دونوں پارٹیوں کے درمیان صلح کرانے کی درخواست کی۔ قائداعظم جب کشمیر گئے تو” شیخ“ صاحب کی پارٹی کے ممبران قائد کی کار کے ساتھ کئی میل تک دوڑتے رہے لیکن بد قسمتی سے انہیں قائد کی طرف سے وہ سپورٹ نہ ملی جسکا وہ خواہشمند تھا۔ قائد نے چوہدری غلام عباس کی کھلم کھلا تعریف کی جس سے شیخ صاحب قائد سے دور ہو کر مزیدنہرو کی گود میں چلے گئے۔یہ ناچاقی آخری دم تک قائم رہی ۔ ”شیخ “محمدعبد اللہ کے مسلمانوں اور خصوصاً کشمیری مسلمانوں کی بہتری کے لئے اپنے خیالات تھے۔1947میں کچھ مشترکہ دوستوں نے قائداور ”شیخ “صاحب کو نزدیک لانے کی کوششیں کیں۔ا گر یہ دونوں مل جاتے تو مسئلہ کشمیر اسی وقت حل ہوجاتا۔
معزز قارئین پاکستان کی تشکیل اور شکست و ریخت میں جتنا اہم کردار ”شیخ صاحبان “نے ادا کیا ہے اتنا کسی اور نے نہیں کیا۔لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا میرے دوست کی پیشیں گوئی کے مطابق شیخ رشید احمد صاحب واقعی ہماری تاریخ کے چوتھے ”شیخ “ثابت ہوتے ہیں؟