اسلام آباد (اے پی پی+ نوائے وقت رپورٹ) وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ حکومت نے بجٹ سازی کے عمل میں مختلف شراکت داروں کو شامل کرنے کے سلسلہ میں ایک کمشن قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جو متعلقہ شراکت داروں سے تجاویز حاصل کریگا جن میں بینک، سٹاک مارکیٹس، ریگولیٹرز اور تاجر برادری شامل ہے، انہیں بجٹ سازی کے عمل میں شامل کیا جائیگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں بجٹ 2014-15ء کے سلسلے میں ’’گرینڈ مشاورتی اجلاس‘‘ کے دوران کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت 3 جون کو بجٹ 2014-15ء پیش کرنے کیلئے تیار ہے جبکہ تین سالہ بجٹ کی حکمت عملی بھی پیش کی جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایس آر اوز کو آئندہ تین سال کے دوران ختم کرنے کیلئے جامع حکمت عملی مرتب کی ہے جبکہ چند ایس آر اوز کو رواں سال بھی ختم کردیا جائیگا۔ انہوں نے کہا اگر حکومت کو معیشت کی بہتری اور ملک کی خوشحالی کیلئے سخت فیصلے بھی کرنا پڑے تو کریں گے، پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں ہم سب کا بھلا ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ آئندہ بجٹ میں عوام پر ٹیکس کا بوجھ نہیں ڈالیں گے اور عام آدمی کے تحفظ کو یقینی بنایا جائیگا۔ دریں اثناء ایف بی آر نے ٹیکس چھوٹ کے خاتمے کیلئے 3 سالہ منصوبہ وزارت خزانہ کو ارسال کر دیا۔ ایف بی آر نے 10 اہم سیکٹر پر ٹیکس چھوٹ ختم نہ کرنے کی سفارش کی۔ ٹیکسٹائل، آلات جراحی پر ٹیکس چھوٹ برقرار رکھنے کا امکان ہے۔ چمڑے، کھیلوں کی مصنوعات، خام تیل کی درآمد پر ٹیکس استثنیٰ برقرار رکھنے کی تجویز دی۔ صدر، وزیراعظم مسلح افواج، گورنرز کی آمدن پر ٹیکس استثنیٰ برقرار رہے گا۔ علاوہ ازیں دفاعی بجٹ پر وزارت خزانہ اور دفاع میں اتفاق نہ ہوسکا۔ ذرائع کے مطابق وزارت دفاع نے آئندہ بجٹ میں 800 ارب روپے مانگ لئے۔ وزارت خزانہ دفاعی بجٹ میں 10 فیصد اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ دفاعی بجٹ سے متعلق وزارت دفاع اور خزانہ کے حکام کی ملاقاتیں جاری ہیں۔ ترجمان کے مطابق دفاعی بجٹ کیلئے مختص رقم پر وزارت دفاع کو کوئی اعتراض نہیں۔ علاوہ ازیں وزیر خزانہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال دفاعی اخراجات میں 9 ارب روپے کے اضافے کا امکان ہے۔ سود اور قرض کی ادائیگی پر 10 کھرب 51 ارب روپے خرچ ہونا تھے، سود قرض پر 11 کھرب 94 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے، رواں مالی سال میں دفاعی اخراجات 636 ارب روپے ہوسکتے ہیں۔ جون کے آخر تک سبسڈیز کی رقم 336 ارب روپے تک پہنچ جائیگی۔ صوبوں کیلئے گرانٹس میں 3 ارب روپے اضافہ ہوگا۔ صوبوں کی گرانٹس کا تخمینہ 52 ارب تھا لیکن 55 ارب روپے خرچ ہوں گے۔