واقعہ معراج اور سائنس ۔۔۔!

ارشاد باری تعالیٰ ہے ”پاک ہے وہ ذات جو لے گئی راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک“۔اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کو جسم اور روح کے ساتھ عالم بیداری میں مکہ مکرمہ سے مسجد اقصیٰ اور پھر اس سے آگے تک لے گئے۔واقعہ معراج کی حقیقت کو دور جدید کی سائنسی ایجادات نے ثابت کر دیا ہے۔بندہ سات سمندر پار کسی دیہات میں بیٹھا ہے اور ویڈیو لنک سے تصویر اور آواز کے ساتھ بات کر رہاہے۔ایک ہی وقت میں پاکستان میں بھی ہے اور امریکہ میں بھی موجود ہے۔بذریعہ کمپیوٹر براہ راست مشاہد ہ ہو رہاہے۔معجزات ،مشاہدات و کشف و کرامات جیسے روحانی معاملات کے منکرین کی عقلی دلیلوں کو سائنس نے مسترد کر دیا ہے۔ٹیلی ویژن ،آئی فون،آئی پیڈ،سکائپ اور دیگر ویڈیو آلات کی مدد سے لائیو نشریات سے مستفید ہونے والے اللہ تعالیٰ کے ”کن فیکون“ سے کیوں کر انکار ی ہو سکتے ہیں۔انبیاءکے کمالات کو معجزات کہا جاتا ہے،اولیاءکرام کے کمالات کو کرامات کہتے ہیں اور عقلی کمالات کو سائنسی ایجادات کہا جاتا ہے۔صحابہ کرام ؓ اور اولیاءکرام سے مستند روایات ثابت ہیں کہ انہوں نے حضور ﷺ سے اپنے سلام کا جواب سنا۔نبی کریم ﷺ سے قبر مبارک سے ارشادات و ہدایات سنیں۔سوتے یا جاگتی حالت میں زیارت وملاقات ہوتی تھی۔ دور جدید میںٹیلی فون کی ایجاد نے حیران کر دیا ۔چند سال پہلے تک جب یہ سنتے تھے کہ ایک ایسا فون بھی ایجاد ہو گا جس میں آواز کے ساتھ تصویر بھی دکھائی دے گی تو حیرانی پریشانی میں بدل جاتی تھی لیکن آج دنیا کے پسماندہ علاقوں میں بھی بذریعہ آئی فون ،آئی پیڈ تصویر کے ساتھ بات کی سہولت موجود ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ آواز اور تصویر کے ساتھ براہ راست گفتگو کرنے والے لوگ زندہ ہیں تو روحانی نگاہ کے لئے قلب کا زندہ ہونا شرط ہے۔جس طرح بجلی کے بغیر سائنسی ایجادات بیکارہیں اسی طرح روحانی پاور کے بغیر روحانیات سمجھنا محال ہے۔ جو لوگ روحانی کیفیات سے محروم ہیں ،ان کے ہاں بارہ مہینے لوڈ شیڈنگ رہتی ہے۔اندھیرے میں ایک دوسرے کی آواز تو سنائی دیتی ہے ،صورت دکھائی نہیں دیتی۔ معجزات وکرامات کی حقیقت عقلی دلیلوں سے بیان نہیں کی جا سکتی۔ام المومنین حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک صبح رسول اللہ ﷺ تہجد کی نماز کے لئے وضو فرما رہے تھے کہ اچانک آپ نے لبیک لبیک فرمایا اور اس کے فورََا بعد نصرت ُ نُصرت فرمایا۔المومنینؓ نے عرض کی ،یا رسول اللہ ! یہ الفاظ فرمانے کی کیا وجہ تھی ؟آپ نے فرمایا کہ عمر بن سالم ؓ (صحابی) اپنے سفر سے مدینے کی طرف واپس آرہے ہیں اور راستے میں انہیں قریش مکہ سے حملے کا خطرہ محسوس ہوا اور انہوں نے مجھے مدد کے لئے پکارا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ میر ی مدد فرمایئے۔اور میں جواب میں یہ کہہ رہا تھا لبیک لبیک میں نے آپ کی مدد کر دی ہے“۔(امام طبرانی،جلددوم،حدیث968)اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ صحابی ہزاروں میل کے فاصلے سے بھی نبی کریم ﷺ سے رابطہ میں تھے ۔ان کے سینوں میںروحانی ویڈیو لنک نصب تھا۔مکہ مکرمہ سے مسجد اقصیٰ تک ایک عام آدمی بذریعہ ہوائی جہاز پہنچ سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ جو اس وسیع و عریض کائنات کے مالک ہیں،کن فیکون ہیں،وہ اپنے خاص بندوں اور محبوب ہستیوں کو پلک جھپکتے ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتے ؟سورة النجم کی آیات مبارکہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنی معیت میں اپنے حبیب ﷺ کو عرش تک کا سفر کرایا۔صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ایک دن بیت اللہ شریف کے پاس سوئے ہوئے تھے کہ تین فرشتے آئے ،آپ کو اٹھا کر آب ِ زم زم کے پاس لٹایا،جبرائیل ؑ نے شق صدر کرکے اسے پاک پانی سے دھویا ،پھر آپ کو براق پر سوار فرمایا ۔آپ بیت المقدس تشریف لے گئے۔وہاں تمام انبیاءعلیہ سلام موجود تھے،آپ نے ان کی امامت کرائی ۔نماز کے بعد حضور ﷺ کا آسمانوں کی طرف سفر شروع ہوا۔آپ پہلے آسمان پر تشریف لے گئے تو وہاں حضرت آدم ؑ سے ملاقات ہوئی۔دوسرے آسمان پر حضرت یوسف ؑ سے،تیسرے آسمان پر حضرت یحیٰ ؑ اور حضرت عیسی ؑ سے،اور چوتھے پر حضرت ادریس ؑ سے ملاقات ہوئی۔پانچویں آسمان پر حضرت ہارون ؑ ،چھٹے پر حضرت موسیٰ ؑ سے ملے۔ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیمؑ کو بیت المعمور سے ٹیک لگائے تشریف فرما دیکھا ، ان سے ملاقات ہوئی، پھر حضور سدرةالمنتہیٰ کی جانب بلند ہوئے۔اس کے بعد حضور ﷺ نے جنت کی سیر کی اور وہاں مومنوں سے کئے وعدوں کے ثمرات دیکھے،پھر آپ نے جہنم دیکھی اور وہاں ہولناک عذاب دیکھے۔سفر معراج میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرایا۔حضور فرماتے ہیں کہ جہنم میں پتھر اور لوہا بھی ڈالا جائے تو وہ آن واحد میں اسے بھسم کر دے۔ پھر آپ سدر المنتہیٰ تشریف لے گئے جسے اللہ کے نور نے ڈھانپ رکھا تھا ۔اس نور نے حضور کو حصار میں لے لیا۔اور پھر حبیب اور محبوب میںرو برو ملاقات ہوئی۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور نے شب معراج اپنے ربّ کی زیارت کی ۔حضور نے جبرئیل ؑ کو دو مرتبہ اصلی صورت میںدیکھا ۔ایک مرتبہ زمین پر اور دوسری مرتبہ سدرة المنتہیٰ کے پاس۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا’مجھے سدرةالمنتہیٰ تک لے جایا گیا ،اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح اور پھل مٹکوں کے برابر ہیں،پھر اس کو ڈھانپ لیا گیا اور وہ اتنا خوبصورت ہو گیا کہ اس کے حسن و جمال کو بیان نہیں کر سکتا۔پھر اللہ نے وحی نازل فرمائی اور مجھ پر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کیں۔میں وہاں سے اتر کر موسیٰ ؑ کی طرف آیا ،انہوں نے پوچھا آپ کے ربّ نے امت پر کیا فرض کیا ہے۔میں نے کہا پچاس نمازیں۔موسیٰ ؑ نے کہا اپنے ربّ کی طرف واپس جایئے اور ان کو گھٹانے کی درخواست فرمایئے،آپ کی امت اس بوجھ کو نہیں اٹھا سکے گی،میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں۔چنانچہ میں اپنے ربّ کی طرف لوٹا اور عرض کی اے پروردگار! میری امت پر ان نمازوں کو کم کریں،چنانچہ میں بار بار اپنے ربّ اور موسیؑ کے درمیان آتا جاتا رہا“۔نبی کریم ﷺمعراج سے اپنی امت کے لئے نمازوں کا تحفہ اور عین الیقین کی دولت لے کر لوٹے۔حضور نے شبِ معراج میں اللہ تعالیٰ کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا اور اگر کسی کو نعوذ باللہ معجزہ معراج پر شبہ ہے، وہ وقت اور فاصلوں کو سائنس کی آنکھ سے سمٹتا ہوا دیکھ لے ۔مشرکین مکہ کو بھی معجزہ معراج پر شبہ تھا۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...