پہلے تو ایک خبر سن لیجئے اور وہ بھی بلا تبصرہ، وینزویلا میں فوج نے صدر کی حمائت کااعلان کیا ہے۔ یہ ملک کچھ دنوں سے سیاسی اور پارلیمانی بحران کی لپیٹ میں ہے۔یہاں سترہ سال بعد اپوزیشن کو پارلیمنٹ میں اکثریت ملی ہے مگر دو تہائی نہیں پھر بھی وہ صدر کا بوریابستر لپیٹنے کےلئے پر تول رہی ہے۔فوج کے اعلان کا مطلب آپ خود سمجھ لیجئے۔
دوسری خبر ہے تو چھوٹی مگر نتیجے کے اعتبار سے بہت بڑی ہے، فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی بہت پرانی ہے ، ہمارے دوست اور محسن چودھری غلام ر سول اس کے وائس چانسلر رہے، بعد میں کون آیا ، کون گیا ،کوئی نہیںجانتا مگر موجودہ وی سی نے اپنے حکم کی وجہ سے شہرت دوام حاصل کر لی ہے، وائس چانسلر کو میں استاد کا رتبہ دیتا ہوں اور کوشش کروں گا کہ ایک استاد کی شان میں گستاخی نہ کروں۔مگر انہوںنے ایک ایسا کام کیا جو ان کے نامہ ا عمال کو سیاہ کر گیا ہے۔
ہر تعلیمی ادارے میں ہلا گلا ہوتا ہے، زرعی یونیورسٹی نے کسان میلے کا اہتمام کیا، اس میں کچھ رنگ بھی بھرا ہو گا، ایک طالب علم نے اس رنگ میں بھنگ ڈال دی ا ور فیس بک پر ایک تبصرہ لکھ دیا جس پر یونیورسٹی اس کے خون کی پیاسی ہو گئی اوراسے ادارے سے نکال کر دم لیا۔
یہ مسئلہ سوشل میڈیا پر گیا تو ایک طوفان کھڑا ہو گیا، یہاں سے اسے ہمارے ٹی وی چینلز نے اچک لیا اور آخر وی سی صاحب کو طالب علم کے اخراج کا حکم واپس لینا پڑا مگر انہوںنے یہ بندو بست ضرور کیا کہ طالب علم سے معافی نامہ لکھوالیا۔
اب آیئے ساری کہانی سن لیجئے۔
طالب علم کا نام ہے سید کاشان حیدر گیلانی۔وہ گولڈ میڈلسٹ ہے اور پی ایچ ڈی میںمصروف۔ اس نے کسان میلے پر اپنے تبصرے میں لکھا:
دو تین دن سے جاری کسان میلے کی حالت دیکھ کر عجب مخمصے کا شکار ہوںکہ بازاری لغویات ا ور پڑھی لکھی فضولیات میں کیا فرق ہے۔کسان میلے کے نام پر ہونےو الے میوزک کنسرٹس کس طرح دیہاتی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔اور کس طرح ہائی امپیکٹ والے اساتذہ کلاسوں کے بجائے اسٹالز پر علم کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں۔اوپر سے صاحبزادہ صاحب کا فکر اقبال پر لیکچر۔۔۔سبحان ا للہ۔جب درسگاہیں ، رقص گاہیں بن جائیں تو کہاں کا اقبال اور کہاں کی تحقیق،صرف لفظی ڈھکوسلے ہیں۔
سید کاشان حیدر کی یہ تحریر یونیورسٹی انتظامیہ کو ناگوار گزری، کوئی اس طالب علم کی تحریر کی پختگی کو دیکھتا تو اسے بلا کر شاباش دیتا ۔ اور اگر اس کی فیس بک پر نظر ڈالی جائے تو انسان عش عش کر اٹھتا ہے اور اقبال ہی کا ایک مصرع یادا ٓتا ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔!
اس کی فیس بک پر یہ شعر ملاحظہ ہو:
مخالفت سے مری شخصیت سنورتی ہے
مخالفوں کا بہت احترام کرتا ہوں
ایک اور شعر ملاحظہ ہو اور طالب علم کی پسند کی داد دیں:
آگہی مجھ کو کھا گئی ورنہ
میںنے جینا تھا اپنے مرنے تک
سید کاشان حیدر گیلانی نے اپنے اوپر گزرنے والی قیامت اور کرب کا اظہار اقبال ہی کی زبان میں یوں کیا ہے:
نسیما جانب بطحا گزر کن
ز احوالم محمد ﷺ را خبر کن
کیاآپ کی آنکھوںمیں آنسو نہیں آئے۔
مجھے یقین ہے کہ وی سی صاحب نے اس کی فیس بک پر ایک بھی نظر نہیں ڈالی ، ورنہ وہ پیر رومی ،مرید عراقی ا ور مرید ہندی کی ایک ہی زمین میں کہی گئی تین فارسی غزلیں پڑھنے کے بعداس طالب علم کا ماتھا چوم لیتے۔طالب علم زرعی یونیورسٹی کا جسے گڈویوں کی ا فادیت کا سبق پڑھایا جاتا ہے مگر اسے شوق لاحق ہے ،رومی ، عراقی اور اقبال کاا ور وہ بھی ان کا فارسی کلام جو ہمار ے جیسے جاہلوں کے سر کے ا وپر سے گزر جاتا ہے۔
رومی کی غزل کے ایک شعر کا ترجمہ پیش کرتا ہوں۔
کل رات ایک بوڑھا شخص چراغ ہاتھ میں لیے شہر میں گھومتا رہا اور کہتا رہا کہ میں شیطانوں اور درندوں سے ملول ہوں اور کسی انسان کو دیکھنے کی آرزو ہے۔
اور اقبال نے گرہ کیسے لگائی، ذرا ملاحظہ ہو:
مجھے تیر و نیزہ و خنجر و شمشیر کی آرزو ہے، (اے دنیا پرست و آسائش پسند) میرے ساتھ مت آ کہ مجھے مسلکِ شبیرؑ کی آرزو ہے۔
وہ جو کہتے ہیں کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ اس طالب علم کو سلام اور اس کی طبعی ذہانت اور فطانت کو سلام۔ اس نے اپنے دفاع کی جنگ سوشل میڈیا پر لڑی، یہی وہ میدان ہے جہاں سے مستقبل کے انقلاب کی ا ٓندھیاں اٹھیں گی ۔ مودی کے ایک ٹویٹ نے کس طرح بر صغیر کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
مجھے اپنے استادوں سے شکوہ نہیں اور نہ حکومتی افسر شاہی سے کہ وہ سوشل میڈیا کی طاقت سے آگاہ نہیں بلکہ انکاری ۔
ویسے وی سی صاحب نے ایک محاورہ تو سن رکھا ہو گا کہ سانچ کو آنچ نہیں۔اس محاورے نے تو سینے پر مونگ دل کے رکھ دی۔
اور اب ایک بڑی خبر مگر ہم نے اسے اہمیت نہیںدی، سعودی وزیر خارجہ آئے ا ور چلے گئے۔ ہم نے ان کے دل بہلاوے کے لئے طرح طرح کی با تیں بنائیں اور کوئی پکڑائی نہیں دی۔ کسی نے نصیحت کی کہ بات چیت سے اپنا مسئلہ حل کرو۔کسی نے فرمایا، ہم غیر جانبدار ہیں ، کسی نے اصول پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی پسند نہیں کرتے، اور کسی نے یہ کہہ کر ا ن کا دل خوش کر دیا کہ آپ کو جب خطرہ لاحق ہوا تو ساتھ کھڑے ہوں گے۔ جتنے منہ اتنی باتیں ، کوئی ایک بات کہنے کی ہمیں توفیق نہیں ہوئی۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان اس وقت تکبر کا شکار ہے۔اسے اپنے ایٹمی اسلحے پر ناز ہے، پاکستان اترا رہا ہے کہ اس نے دہشت گردوں کی کمر توڑد ی ہے۔
یہ سب کچھ ٹھیک، درست مگر یاد رکھئے اور میں دکھی دل سے خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ ہم نے اپنے اس متکبرانہ رویئے سے پاکستان کو قوموں کی برادری ، خاص طور پر دوستوں سے اپنے آپ کو دور کر لیا ہے، تنہا کر دیا ہے، خدا نہ کرے کسی دن ہمیں کسی دوست کی ضرورت پڑے ا ور جواب میں ہمیں چکنی چپڑی باتوں سے ٹرخا دیا جائے۔ واللہ ! ہم سے برداشت نہیں ہو پائے گا اور یہ بھی یاد رکھئے کہ سعودی عرب تو حرمین شریفین کی سر زمیں ہے ،ا سکی حفاظت کسی اور کے ذمے ہے، ہمیں تو اپنی فکر کرنی چاہئے۔
مگرخدا وہ وقت نہ لائے !
کاش! کوئی تو سعودی مہمان گرامی سے کہتا کہ ہمارے ہوتے ہوئے کون ہوتا ہے آپ کی طرف میلی آ نکھ سے دیکھنے والا!!