؎ دوچار برس کی بات نہیں نصف صدی کا یہ قصہ ہے مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان سے کم وبیش نصف صدی سے یاد اللہ رہی جب وہ دوسری بار صدر آزاد جموں و کشمیر منتخب ہوئے تومجھے کم وبیش 45سال قبل پونچھ ہائوس میں ان کا انٹرویو حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہو ا وہ حکومت میں رہے یا اپوزیشن میں وقت کے ساتھ ساتھ ان سے تعلق بڑھتاگیا ہمارا شمار ان کے حلقہ ارادت میں ہونے لگا یوں تو سردار محمد عبدالقیوم کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی لیکن ہم بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہیں انہوں نے اپنے دل میں مقام دے رکھا تھا راولپندی اسلام آباد پریس کلب ہو یا راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس، نوائے وقت کا ’’ایوان وقت‘‘ ہو یا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی تقریب ہو سردار محمد عبدالقیوم میری دعوت قبول کر لیتے تھے وہ تھے تو کشمیری لیکن بیک وقت پاکستان اور کشمیر کی سیاست کے شاہسوار تھے اگر یہ کہا جائے کہ ان کی منزل کا آٖغاز کشمیر تھا اور اختتام پاکستان تھا پاکستان کی سیاست میں ان کا کردار محدود تھا جب کبھی وہ پاکستان کو مسائل میں گرا دیکھتے تو ترپ اٹھتے ان کے اندر چھپی پاکستانیت جاگ اٹھتی وہ پاکستان کے دشمنوں کے لئے ’’تیغ بے نیام‘‘ تھے وہ ہمہ وقت نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لئے میدان عمل میں اترنے کے لئے تیار رہتے جب 1971ء میں بھارت کی سازش سے پاکستان دولخت ہو گیا تو انہوں نے کشمیری نوجوان نسل کے دلوں سے ان کی منزل ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ محو نہ ہونے دی انہوں نے نوجوان نسل کو ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ دے کر ’’خود مختار کشمیر‘‘ کے نعرے کے سحر سے نکال لیا انہوں نے تعلیمی اداروں میں’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگانا لازمی قرار دے دیا حتی کہ سرکاری اداروں اور تقریبات میں اس نعرے کو لازمی حصہ بنا دیا حتی ٰکہ انہوں نے آزاد کشمیر کے انتخابات میں حصہ لینے والوں کو ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا حلف اٹھانے کا پابند بنا دیا آج کشمیر کے دونوں اطراف’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے کی گونج سنائی دیتی ہے ممکن ہے اس میں کشمیر کے دیگر رہنمائوں کا بھی بڑا عمل دخل ہو لیکن ان میں مجاہد اول سردار محمد عبد القیوم خان کا حصہ سب سے زیادہ ہے وہ ایک کشمیری نژاد عظیم پاکستانی تھے جنہیں پاکستان کی سیاست سے الگ تھلگ نہیں کیا جا سکتا سردار محمد عبد القیوم خان نے پاکستان اور کشمیر کی سیاست میں بھر پور کر دار ادا کیا ہے وہ کم وبیش 7عشروں تک سیاسی افق پر ’’قطبی ستارہ‘‘ کی طرح چمکتے رہے ان کا شمار پاکستان اور کشمیر کی سیاست میں ’’سمت کا تعین ‘‘کرنے والوں میں ہوتا تھا ان کی پاکستان کے سیاست دانوں سے دوستی اور دشمنی کا پیمانہ ’’کشمیر‘‘ ہوتا تھا پاکستان کا حکمران فوجی ڈکٹیٹر ہو یا سیاست دان وہ جتنا مسئلہ کشمیر سے مخلص ہوتا اتنا ہی وہ ان کا دوست ہوتالیکن جب وہ محسوس کرتے کہ پاکستان کے کسی حکمران کی کشمیر کے بارے میں تاریخی موقف میں کمزوری آگئی ہے تو وہ اس کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کرتے لیکن جب اصلاح احوال کی گنجائش نہ رہے تو سر بکف ہو کر اس کے خلاف نکل آتے اور پھر اس بات کی پروا کئے بغیر کہ اس کے ساتھ کتنے گہرے تعلقات ہیں اس کا قبلہ درست کرنے کا فریضہ انجام دیتے ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی لڑائی میں اس حد تک شدت پیدا ہوگئی تھی کہ انہوں نے سردار محمد عبدالقیوم جو کہ اس وقت آزاد جموں کشمیر کے منتخب صدر تھے کو معزول کر کے جیل میں ڈال دیا اور عملاً آزاد کشمیر میں ’’سول مارشل لائ‘‘ نافذ کر دیا لیکن جب 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک جس کا حصہ مسلم کانفرنس بھی تھی کے باعث ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کا ’’سنگھاسن‘‘ ڈولنے لگا تو سردار محمد عبدالقیوم ہی ان کی مدد کو آئے ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں رہا کر کے پی این اے کی قیادت کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی درخواست کی انہوں نے پاکستان کو سیاسی بحرانوں سے نکالنے میں اپنا سیاسی کردار ادا کیا پاکستان کے حکمرانوں جن میں یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور پرویز مشرف شامل ہیں سے دوستی بھی رہی اور ان کی پالیسیوں کے ناقد بھی رہے وہ میاں نواز شریف کے بے حد قریب تھے لیکن پرویز مشرف کے ’’مارشلائی دور‘‘ میں مسلم کانفرنس کی قیادت ان کے صاحبزادے سردار عتیق احمد خان کے ہاتھ آنے کے بعد سردار محمد عبدالقیوم خان عملاً گوشہ نشین ہو گئے ان کے غیر متحرک ہونے سے جہاں مسلم کانفرنس منقسم ہو گئی وہاں مسلم کانفرنس جسے قائد اعظم کشمیر میں مسلم لیگ ہی کا درجہ دیتے تھے عوام میں سند مقبولیت رکھنے والی جماعت مسلم لیگ(ن) سے بھی دور ہوتی چلی گئی اور پھر یہ دوریاں اس قدر بڑھ گئیں کہ مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت نے آزاد جموں و کشمیر میں مسلم لیگ (ن) قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا جسے عملاً مسلم لیگ(ن) کی شاخ کا درجہ دے دیا گیا جن دنوں آزاد جموں کشمیر میں مسلم لیگ (ن) قائم کرنے کی تجویز زیر غور تھی مجھے اس دوران بڑے قریب سے یہ سارا عمل دیکھنے کا موقع ملا ہے مسلم لیگ (ن) کے اندر دو رائے تھیں اس لئے آزاد جموں وکشمیر میں مسلم لیگ(ن) کے قیام میں خاصا وقت لگ گیا چودھری نثار علی خان آزاد جموں و کشمیر میں مسلم کانفرنس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) بنانے کے حق میں نہ تھے سردار محمد عبدالقیوم خان ’’غیر ریاستی‘‘ جماعتوں کے کردار کے مخالف تھے جب پہلی بار ذالفقار علی بھٹو نے آزاد جموں وکشمیر میں پیپلز پارٹی بنائی تو سب سے زیادہ مخالفت سردار محمد عبدالقیوم نے کی سینئر صحافی سعودساحر ، سلطان سکندر اور میں ان کے’’حلقہ ارادت‘‘ میں شامل تھے سعود ساحر تو ہم سے بھی زیادہ ان کے قریب تھے سلطان سکندر جو کشمیری سیاست پر گہری نظر رکھنے والے شاید واحد صحافی ہیں جن کا آخری وقت تک ان سے ذاتی سطح پررابطہ تھا سردار محمد عبدالقیوم اپنی رہائش گاہ پر صاحب فراش تھے میں ان کی عیادت کے لئے گیا تو خاصی دیر تک ان سے ملکی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال ہوتا رہا اگرچہ وہ کئی کتب کے مصنف تھے لیکن انہوں نے مجھے فرقہ واریت کے خلاف لکھی گئی اپنی تحریر شدہ کتاب دستخطوں سے مجھے دی انہوں نے میری اس بات سے اتفاق کیا کہ’’ ان کے عملی سیاست سے ریٹائر ہونے سے جن خرابیوں نے جنم لیا ہے ان کے متحرک ہونے سے ان پر قابو پایا جاسکتا تھا ان کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے سردار سکندرحیات نے ان سے الگ ہوکر اپنی سیاست شروع کر دی اور پھر جیتے جی دونوں کبھی آپس میں نہ مل سکے اسی طرح سردار قیوم اور وزیر اعظم محمد نواز شریف کے درمیان پیدا ہونے والے فاصلے بھی کم نہ ہوسکے سردار محمد عبدالقیوم خان کی وفات سے تحریک آزادی کشمیر کا ایک درخشاں باب ختم ہو گیا ہے۔ تحریک آزادی کشمیر میں پہلی گولی چلانے پر انہیں’’مجاہد اول‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ ان کے مخالفین ان کے ’’مجاہد اول‘‘ کہلانے پر تنقید کرتے رہے ہیں لیکن کشمیر کی تاریخ میں ان کاکوئی ثانی پیدا نہ ہو سکا انہوں نے 23اگست 1947ء کو نیلہ بٹ کے مقام سے کشمیر کی آزادی کے لئے عملاً مسلح جدوجہد کا آغاز کیا ان کا شمار کشمیر کے ان لیڈروں میں ہوتا تھا جو مسلح جدوجہد آزادی کے ساتھ سیاسی جدوجہد پر بھی یقین رکھتے تھے انہوں نے ’’مجاہد فورس‘‘ بنا کر کشمیر آزادی کے لئے رضاکار تیار کئے انہوں نے آزاد خطے کو کشمیر کی آزادی بیس کیمپ بنایا وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے جہاں بھارتی قیادت کو ڈائیلاگ کی دعوت دیتے تھے وہاں وہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے پروگرام سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے وہ ایک درویش صفت، صوفی منش، مدبر اور مستقبل پر گہری نظر رکھنے والے سیاست دان تھے وہ کسی یونیورسٹی کے گریجویٹ تو نہ تھے لیکن یونیورسٹیوں کے بڑے بڑے اساتذہ علمیت سے متاثر ہو کر ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے تھے ان کے نکتہ نظر سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے لیکن ان کی تحریک آزادی کشمیر سے کمٹمنٹ پر کوئی شک نہیں کر سکتا جس طرح سید ابولاعلیٰ مودودیؒ نے یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کو اسلام کا سپائی بنایا سردار محمد عبدالقیوم خان نے کشمیری نوجوان نسل کی نظریاتی تربیت کرکے ان کے اندر پاکستان سے محبت کا جذبہ پیدا کیا ان کے دلوں سے پاکستان کی منزل محو نہیں ہونے دی پاکستان کے حکمرانوں کی’’ زیادتیوں‘‘ کے باوجود آزاد کشمیر میں پاکستان کے مخالف ماحول پیدا نہ ہونے دیا ’’خود مختار کشمیر ‘‘کے نعرے کو غیر مؤثر بنانے میں مجاہد اول کا کلیدی کردار ہے سردار محمد عبدالقیوم خان تحریک آزادی کشمیر کے قافلے آخری سالار رہ گئے تھے ان کے ہم عصر کئی رہنما اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی فورمز پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا اور دنیا کی نظروں سے مسئلہ کشمیر کو اوجھل نہیں ہونے دیا سردار محمد عبدالقیوم کی وفات سے تحریک آزاد کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ 91 سالہ’’ مجاہد اول ‘‘۔ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگاتے لگاتے اس دنیا سے رخصت ہو گیاکشمیر کی آزادی کی تمنا دل میں لئے دار فانی سے کوچ کر گیا۔