بلیم گیم کا بھارتی آفنسو

 بھارت نے لائن آف کنٹرول کے واقعات کو، یکا یک کیوں اچھالا ہے، اس کا ایک مخصوص پس منظر ہے کہ امریکہ اگلے برس علاقے سے رخصت ہو رہا ہے، بھارت کوشش کر رہاہے کہ دنیا کو باور کرائے کہ مجاہدین افغانستان سے فراغت پا کر کشمیر پر چڑھ دوڑیں گے۔مگر بھارتی اخبار ہندو کی خبر کے مطابق وہاں کے عوام اپنی حکومت کے اس پراپیگنڈے پر سوالیہ انگلی کھڑی کر رہے ہیں کہ اگر کنٹرول لائن پر جھڑپیں ہو رہی ہیں اور بھارتی فوج نے مجاہدین کو شہید کیا ہے تو ان کی لاشیں کہاں ہیں ، مرنے والوں کے نام کیا ہیں ، ان کی شناخت کیا ہے، ان سوالوںسے ظاہر ہوتاہے کہ کنٹرول لائن پر جھڑپوںکا پراپیگنڈہ سراسر بے بنیاد ہے۔جنوری میں اس کی ابتدا کی گئی،اس وقت دہلی میں عصمت دری کا انسانیت سوز سانحہ رونما ہوا تھا، عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے کشمیر میں جھڑپوں کا ڈرامہ رچایا گیا۔اگست میں یہ ہوا کہ بھارتی فوجی مقبوضہ علاقے کے کسی گاﺅں میں جا گھسے، وہ خواتین کو ہوس کا نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ گاﺅں والے پہلے ہی ستے بیٹھے تھے، انہوںنے بھارتی فوجیوں کا مزاج درست کر دیا اور اس ٹھکائی کو کنٹرول لائن کی جھڑپ کا نام دے دیا گیا۔
میں بڑی درد مندی سے پوچھتا ہوں کہ بھارت کی طرف سے پاکستان آرمی پر الزامات کی سمجھ تو آتی ہے مگر ہمارے ہاں فوج کے بارے میں کیوں شبہات پھیلائے جا رہے ہیں۔جبکہ وزیر اعظم نواز شریف ریکارڈ پر ہیں کہ تمام ملکی ادارے ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور انہیں سب کا اعتماد حاصل ہے تو پھر یہ سوال کیسے جائز ہے کہ پاک فوج خطے میں قیام امن کے لئے حکومتی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اور یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم بھارت سے دوستی چاہتے ہیں لیکن پاک فوج کنٹرول لائن کو گرم کر کے وزیر اعظم کی کوششوں کو سبو تاژ کرنا چاہتی ہے۔اصل میں امن کی راہ میں رکاوٹ خود بھارت ہے۔
 امن کی آشا والوں سے کوئی پوچھے کہ آپ پاکستان میں اتنے بڑے اجتماعات کرتے ہیں ، کیا کبھی کسی نے آپ کو روکا، کیا بھارتی مہمانوں کے ویزوں میں کوئی رکاوٹ ڈالی گئی۔حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے تجارتی حلقوں کے مطابق معاملہ الٹ ہے، ہم جس بھارتی بزنس مین کو چاہتے ہیں ، بلا لیتے ہیں لیکن بھارت والے ہمارے کسی بزنس مین کو بلاتے ہیں تو نئی دہلی سرکار انہیں ویزے نہیں دیتی۔
وزیر اعظم کے دورے کے موقع پر امریکہ نے کولیشن سپورٹ فنڈ کا اجرا کر دیا، اس پر یہ بتنگڑ بنا لیا گیا ہے کہ یہ بھاری رقم ہماری فوج کو ملتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری رقم حکومتی خزانے میں آتی ہے، اس کا کنٹرول وزارت خزانہ کے ہاتھ میں رہا ہے اور وہی اس کی مزید تقسیم کا فیصلہ کرتی ہے، بعض اوقات تو یوں بھی ہوا کہ زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ دکھانے کے لئے اس رقم کو روک کر رکھا گیا۔اور اگر یہ رقم کسی کو جاری کی جاتی ہے تو ان منصوبوں کی بنیاد پر جن کی حکومت منظوری دے چکی ہوتی ہے اور یہ سول ٹھیکیداروں کو جاتی ہے۔
بلوچستان کا مسئلہ ایک ٹیڑھی کھیر ہے۔ آرمی چیف گزشتہ ماہ بلوچستان گئے، وزیر اعلی بلوچستان سے ملے ۔ان کو احساس ہے کہ بلوچستان کے وزیر اعلی کچھ کر گزرنے کی تمنا رکھتے ہیں،سو انہوں نے یقین دلایا کہ فوج ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گی۔زلزلے میں سب سے پہلے فوج کے امدادی دستوں نے آواران میں قدم رکھا ، ایک بٹالین فوج راتوں رات حرکت میں آگئی، اب تو وہاں ایک بریگیڈ سر گرم عمل ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض عناصر بد گمانی پھیلا رہے ہیں کہ آواران میں فوجی آپریشن ہو رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فوج وہاں لاکھوں دکھی لوگوں کے دلوں پر مرہم رکھ رہی ہے، فوجی ڈاکٹر علاج معالجے میںمصروف ہیں، خوراک ،کپڑے،خیمے ، ضرورت کی تما م چیزیں انہیں مہیا کر دی گئی ہیں، گھروں کی تعمیر کا مرحلہ شروع ہونے والا ہے، اس کے لئے زلزلے کے خدشات کا جائزہ لیا جائے گا۔یہ علاقہ فالٹ لائن کا مرکز ہے۔لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروںمیں امدادی سامان اکٹھا کرنے کے مراکز قائم ہیں اور اب تک یہاں سے پانچ ہزار ٹن سامان اکٹھاکر کے آواران پہنچایا جا چکا ہے۔ایئر فورس نے علیحدہ کردار ادا کیا ہے، ابتدائی مرحلے میں نقصان کا جائزہ لینے میں ایف سولہ کو بھی استعمال کیا گیا اور سی ون تھرٹی سے ہر جگہ سامان گرایا جا چکا ہے۔امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے فوج پر حملے ہوتے ہیں لیکن ان کی پروا کئے بغیر مسلح افواج امدادی سرگرمیوں میں ہمہ تن مصرف ہیں۔
 اس وقت سول جمہوری حکومت اور فوج میں مثالی تعلقات کار قائم ہیں۔وزیر اعظم نے امریکہ جانے سے قبل مکمل مشاورت کی۔ راستے میں لندن رکے تو میڈیا کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ امریکہ کو مداخلت کر کے کشمیر کا مسئلہ حل کرانا چاہئے۔ کلنٹن سے ملاقات میں انہوںنے کہا تھا کہ امریکہ مڈل ایسٹ کا مسئلہ حل کرنے کے لئے جو وقت صرف کر رہا ہے، اس کا صرف دس فی صد وقت کشمیر کے لئے وقف کر دے تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔اور اس سے بر صغیر میں امن قائم ہو جائے گا جہاں دونوںمتحارب ملکوں کے پاس ایٹمی اسلحہ اور میزائل موجود ہیں اور وہ امن عالم کو بھسم کر سکتے ہیں۔اس پر بھارت بہت تلملایا ہے، ان کے وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ شملہ معاہدہ کے تحت دو طرفہ حیثیت رکھتا ہے، کوئی دوسرا اس میں ٹانگ نہیں اڑا سکتا اور ویسے بھی کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بنا لیا گیا ہے، اس کے بعد اس مسئلے کا ذکر ہی کیوں کیا جارہا ہے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ بھارتی حکومت اور اپوزیشن جو ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں ، اس مسئلے پر متحد اور یک جان ہیں ، بی جے پی نے سلمان خورشید کے بیان کی بھر پور تائید کی ہے۔کاش! پاکستان میں بھی کشمیر پر متفقہ موقف اختیار کر لیا جائے۔
بھارت نے پاکستان کے اند ر مداخلت کب نہیں کی ۔ بلوچستان میںمداخلت کا ذکر تو شر م الشیخ کے مشترکہ اعلامیہ میں آیا اور اب نواز شریف اور من موہن سنگھ کی نیویارک ملاقات میں بھی اس کا ذکر چھڑا ۔سابق بھارتی آرمی چیف تو خود اعتراف کرتے پھرتے ہیںکہ انہوںنے پاکستان میں دہشت گردی کے لئے پیسہ بانٹا۔اس گواہی کے بعد بھارت اپنے آپ کو کیسے پوئتر خیال کرتا ہے۔
میں ان کالموں میں شروع سے اس بلیم گیم کا کچا چٹھا بیان کر رہا ہوں جس کے سوتے بھارت سے پھوٹتے ہیں اور بد نصیبی یہ ہے کہ ہم آنکھیں بند کر کے اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ میری تجویز یہ ہے کہ بلیم گیم کے بھارتی آفنسو کے جواب میں پاکستان کی طرف سے بھی حکومت اور سول سوسائٹی مل کر ایک میڈیا آفنسو شروع کرے تاکہ بھارت کا منہ بند کیا جا سکے اور دنیا کو حق اور سچ پر مبنی موقف سے آگاہی حاصل ہو سکے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن