دہشت گردی کے ثبوت حوالے کرنے پر ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے؟
سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ بلوچستان اور دیگر علاقوں میں بھارتی مداخلت کے ثبوت بھارت کو فراہم کر دیئے ہیں۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کو ہر فورم پر اٹھایا جائیگا۔ بھارت واویلا اور الزام تراشی کی بجائے مذاکرات کی طرف قدم بڑھائے، دہشت گردی سے بھارت کم پاکستان زیادہ متاثر ہے۔ بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے خواہاں ہیں۔ پارلیمنٹ ہائوس میں سینٹ کی خارجہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردی سے متعلق بھارت کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے۔ بھارت کے ساتھ کشمیر، پانی اور دہشت گردی سمیت تمام معاملات ہر فورم پر اٹھائینگے۔ مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کا کوئی نعم البدل نہیں، مذاکرات سے ہی اختلاف ختم ہوتے ہیں بھارت سے مسائل مذاکرات سے ہی حل ہونے چاہئیں۔ بھارت الزامات کی بجائے بات چیت کا عمل شروع کرے، کشمیر سرکریک اور سیاچن کے مسائل کے حل کیلئے آگے بڑھے۔ بلوچستان میں مداخلت کے ثبوت سینٹ اجلاس میں بھی پیش کئے جا چکے ہیں۔
دہشت گردی سے صرف بلوچستان ہی نہیں پورا ملک متاثر ہے۔اس کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں لیکن اس کے پیچھے مقصد ایک ہی ہے کہ پاکستان کو تباہ و برباد کردیاجائے۔ کچھ حلقے پاکستان میں دہشت گردی و تخریب کاری میں غیر ملکی قوتوںکو ملوث قرار دیتے ہیں اورعموماً بھارت کا نام لیا جاتا ہے۔اب جبکہ پاکستان کی طرف سے بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کے ثبوت بھارت کے حوالے بھی کردئیے گئے ہیںتو بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات الزام برائے الزام نہیں کہاجاسکتا۔ دوسری طرف بھارت میں بقول وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے اگر پٹاخہ بھی چل جائے تو بلا تحقیق اور کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام لگا دیاجاتا ہے ،پھر بھارتی میڈیا آسمان سر پر اُٹھا لیتا ہے۔بھارت کی طرف سے پارلیمنٹ پر حملے اور ممبئی دھماکوں کا الزام پاکستان پر لگایا گیا جس کی کئی سال بعد ہی سہی خود ایک بھارتی سابق افسر نے وضاحت کردی کہ یہ حملے خود بھارتی حکام نے دہشت گردی کے خلاف قوانین کو مزید سخت بنانے کیلئے کئے تھے تاہم مذکورہ بھارتی افسر نے بعد ازاں دبائو پر اپنا بیان واپس لے لیا لیکن کمان سے نکلا تیر واپس نہ آسکا۔
گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف نے نیشنل کمانڈ سنٹر اور ویپن سٹوریج سائٹ کے دورے کے موقع پر کہا ’’پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے اور اسلحہ کی کسی دوڑ میں شامل نہیں۔سٹرٹیجک صلاحیت کے سلسلے میںکم سے کم قابل بھروسہ ڈیٹرنس کی پالیسی کو جاری رکھے گا۔‘‘ پاکستان بھارت کے ساتھ اسلحہ کی دوڑ میں شامل ہے یا نہیں اس پر بحث ہوسکتی ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان اگر ایٹمی قوت بنا اور اس نے جدید ترین ہتھیار بنائے یا حاصل کئے اس کی بڑی وجہ بھارت کی دشمنی،اس کا جارحانہ رویہ اور اس کی طرف سے پاکستان پر مسلط کی گئیں جنگیں ہی ہیں۔بلاشبہ پاکستان ا یٹمی پروگرام کے حوالے سے کم از کم ڈیٹرنس کے اصول پر کاربند ہیں مگر بھارت اپنے ایٹمی پروگرام کو توسیع دینے میں مگن اوروہ کئی ممالک سے سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی حاصل کر رہا ہے ۔حالیہ دنوں میں اس بحریہ میں ایٹمی آبدوزیں بھی شامل کی گئیں ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان اور بھارت دونوں پسماندہ ممالک ہیں ان کے افواج اور روائتی و غیر روائتی اسلحہ پر آنے والے بھاری اخراجات اپنے اپنے ممالک کی پسماندگی دور کرنے اور تعلیم و صحت کی سہولتوں پر صرف ہوسکتے ہیں۔پاکستان ایسا ہی چاہتا ہے لیکن بھارت کے اتفاق کے بغیر ایسا ممکن نہیں ۔ پاکستان اور بھارت کے مابین بنیادی ایشو مسئلہ کشمیر ہے جو بھارت کا پیدا کردہ ہے وہ حل ہوجائے تودونوں ممالک کی دشمنی دوستی میں تبدیل سکتی ہے۔ بھارت نے کشمیر پر جارحانہ قبضہ کیا اور اس کو برقرار رکھنے کیلئے وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھد اڑا رہا ، کشمیریوں کا بے دردی سے خون بہا رہا اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے سرگرداں رہتا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ پاکستان کشمیر کو بھول جائے ۔لائن آف کنٹرول کو حتمی سرحد مان لیاجائے۔پاکستان کے نقطہ نظر سے ایسا ممکن نہیں ۔تقسیم ہند کے تمام ضوابط اور اصولوں کے مطابق کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ بانی پاکستان نے اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور بھارتی قبضے کے بعد قائم مقام انگریز آرمی چیف جنرل گریسی کو کشمیر پر لشکر کشی کا حکم دیا جس پر بوجوہ عمل نہ ہوسکا ۔قائداعظم اس کے بعد جلد انتقال فرما گئے ۔ان کے بعد آنیوالے حکمرانوں میں کشمیر کے حوالے سے قائداعظم جیسی کمٹمنٹ نظر نہ آئی۔ بھارت مقبوضہ وادی پر فوجی طاقت کے زور پر قبضہ مضبوط کرتا چلا گیا لیکن کشمیری اس کی بالادستی کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ وہ آزادی کیلئے اپنی جان کے نذرانے دے رہے ہیں۔ بھارت کشمیریوں کی حریت پسندی کو دہشت گردی سمجھتا اور اس میں پاکستان کو بھی ملوث قرار دیتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک جب بھی زور پکڑتی ہے توبھارت کی طرف سے پاکستان پر الزامات کی بھرمار اور انتقام کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے وہ کشمیر میں حریت پسندوں کی کارروائیوں کا انتقام لائن آف کنٹرول پر شر انگیزی ،بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک کو ہوا دیکر اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ کرکے دیتا ہے۔ اس کا رویہ ہمیشہ چور نالے چتر کا رہا ہے۔ بھارتی صدر مکرجی کہتے ہیں کہ دہشت گردی کیمپ اور انفراسٹرکچر ختم کیے بغیر پاکستان سے مذاکرات مشکل ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے مکرجی بات کرکے مکرجاتے ہیں بغیر ثبوتوں کے الزام کو کون تسلیم کرے گا؟ بھارتی بارڈر اور LOC پر باڑھ لگی ہے پاکستان کی طرف سے کوئی کیسے کشمیر اور بھارت میں داخل ہوسکتا ہے۔؟ منموہن سنگھ کشمیرکو اٹوٹ انگ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو متروک قرار دے چکے ہیں پھر مکرجی اور پاکستانی قیادت بھارت کے ساتھ کس ایشو پر مذاکرات کی بات کررہے ہیں؟ سیکرٹری خارجہ جیلانی نے پانی، سیاچن اور کشمیر کے مسائل بھارت کے ساتھ اٹھانے کی بات کی ہے مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو دیگر مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔
پاکستان نے بلوچستان میں مداخلت کے ٹھوس ثبوت بھارت کے حوالے کردئیے۔ بس حکومت پاکستان کی یہی ذمہ داری تھی؟ اب بھارت مداخلت بند کردے گا اور پاکستان میں ہر طرف سکھ چین اور سکون کا دور دورہ ہوگا؟ غیرت مند قومیں دشمن کے ایسے ہتھکنڈوں پر خاموش رہ کر دشمن کے مزید وار کا انتظارنہیں کرتیں۔ آج ہم جس جنگ کا حصہ ہیں یہ امریکہ کے ٹریڈ سنٹر پر شدت پسندوں کے حملے سے شروع ہوئی۔ امریکہ اس پر خاموشی اختیار کرتا تو اب تک شدت پسند اس کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے جبکہ اب وہ چھپتے پھر رہے ہیں۔
وزیر امور کشمیر برجیس طاہر نے کشمیرحق خود ارادیت کانفرنس میں کہا کہ پاکستان کشمیر کے بغیر نامکمل ہے کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ کاش ایسا ہو اور مرکزی حکومت وہی کرے جو اس کے وزیر نے کہا۔ مسائل یقینا مذاکرات سے حل ہوتے ہیں لیکن ان کیلئے قیامت تک کا عرصہ درکار نہیں ہوتا۔65 سال سے مذاکرات ہی ہورہے ہیں اور اس علاقے پر جس کو دشمن اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ ہمارے حکمران اپنی شہ رگ کی واگزاری کیلئے کوئی مؤثرحل ڈھونڈیں اور بلوچستان میں دشمن کے ملوث ہونے پر ثبوت فراہم کرکے چپ سادھ کے نہ بیٹھے رہیں۔