وزیر داخلہ کے بعد وزیراعظم کا بھی دہشتگردی کے حوالے سے بھارت کا نام لینے سے گریز
وزیراعظم نوازشریف نے جاتی امراء میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کیخلاف حکومت، فوج اور تمام قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی مشترکہ کوششوں کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ ہمت صبر اور ہوشمندی سے دہشت گردی کا مقا بلہ کرنا ہے۔ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کے پیچھے سرگرم غیر ملکی ہاتھ کو عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کرنے کیلئے حکومت نے ٹھوس ثبوت اکٹھے کر لئے ہیں۔ پاکستان کی ترقی کا خواب امن کے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ ملک میں کئی دہائیوں سے پھیلی دہشتگردی کے خاتمے کا عزم کر چکے ہیں جس کیلئے حکومت ‘ پاک افواج‘ قانون نافذ کرنیوالے دیگر ادارے اور پوری قوم ایک پیج پر اور یکسو ہے دہشت گردوں کا ہر جگہ پیچھا کرینگے، دہشت گردی کیخلاف جنگ ہر حالت میں جیتنا ہوگی۔ یہ آئندہ نسلوں کی بقا کا سوال ہے۔
دہشت گردی اور دہشت گردوں کے قلع قمع کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہے ہی نہیں۔ فوج اور حکومت جس طرح دہشت گردوں کے خاتمہ کیلئے کمٹڈ اور ایک پیج پر ہے‘ یقیناً اس کاز میں کامیابی ہو گی مگر اس میں ٹائم فریم کا تعین ممکن نہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ کو مختصر عرصہ میں ختم نہ ہونیوالی جنگ قرار دیا‘ وہ کہتے ہیں کہ یہ جنگ کئی برس جاری رہ سکتی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے چودھری نثارعلی کی رائے کی تائید ان الفاظ میں کی کہ یہ جنگ ہفتوں اور مہینوں میں ختم ہونیوالی نہیں ہے۔ اگر حالات سازگار ہوں اور پوری قوم‘ فوج اور حکومت کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہو جائے تو یہ جنگ مختصر عرصے میں بھی جیتی جا سکتی ہے۔
ایسی جنگوں میں کامیابی بلاشبہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گی جس میں دشمن آپ کو نظر نہیں آتا اور یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ آپکا ساتھی ہی تو دشمن نہیں ہے۔ قوم کے فوج اور حکومت کے ساتھ مل کر سیسہ پلائی دیوار بننے کا مطلب یہ ہے کہ دہشت گردوں کو کسی قسم کی سپورٹ نہ مل سکے۔ بطور متحدہ قوم ہماری یہ ذمہ داری بھی ہے کہ اجنبی کو اپنے درمیان پھٹکنے بھی نہ دیں۔ دہشت گردوں کا زیادہ تر حلیہ افغانستان سے حفاظت اور روٹی روزگار کی تلاش میں آئے باشندوں سے ملتا ہے۔ ان میں سے چودہ لاکھ رجسٹرڈ ہیں اور باقی آوارہ گرد‘ مگر سب جہاں چاہتے ہیں‘ رہتے اور کاروبار کرتے ہیں۔ کئی کے تو اربوں مالیت کے بزنس ہیں۔ یہ ہمارے مسلمان بھائی ہمارے لئے قابل احترام ہیں مگر دہشتگردی میں ملوث ہوں تو ہمارا ان سے کوئی بھائی چارہ نہیں۔ افغانستان میں اب امن ہے‘ مہاجرین کو حکومت بصد احترام انکے وطن مالوف پہنچا دے۔ اسکے بعد دہشتگردوں کی شناخت قدرے آسان ہو جائیگی۔
دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے ہر ممکنہ اقدام کرنا چاہیے۔ ضرب عضب اسکی ایک قسم ہے۔ شہر شہر دہشت گردوں کا تعاقب ہو رہا ہے۔ گزشتہ روز وائٹ ہائوس میں دہشت گردی کیخلاف ایک عالمی کانفرنس ہوئی جس میں پاکستان سمیت 60 ممالک کے حکام شریک تھے۔ اس کانفرنس سے صدر اوباما نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ پرتشدد انتہا پسندوں کو بھرتی کرنیوالوں اور پروپیگنڈا پر مامور افراد کا دنیا متحد ہو کر یکسوئی سے مقابلہ کرے کیونکہ فوجی طاقت سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ نہ ہی ان سب دہشت گردوں کا پکڑا جانا اتنا آسان ہے، جو بے گناہ شہریوں کو ہلاک کرتے ہیں۔کانفرنس کے آخری روز اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ دہشت گردی روکنے کیلئے صرف طاقت کا استعمال اس مسئلے کو مزید خراب کر سکتا ہے۔کانفرنس کے شرکا نے تجویز پیش کی کہ ایسا کثیر الجہتی نقطہ نظر اپنایا جائے۔ جس میں دل و دماغ کی تسخیر کا طریقہ کار شامل ہو۔
پاکستان میں یقیناً دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے طاقت کے علاوہ بھی اقدامات ہو رہے ہیں۔ دل و دماغ عملیت پسندی کی تحریک سے ہی تسخیر ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں مدارس کی تعداد 18 ہزار ہے‘ ان میں سے ایسے بھی ہیں جو دہشت گردی کی پناہ گاہ اور نرسری کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ انکی تعداد آٹے میں نمک سے زیادہ نہیں۔ حکومت کو ایسے مدارس سے کسی قسم کی رورعایت نہیں کرنی چاہیے جبکہ امن و آشتی کا درس دینے والے ادارے مساجد کے آئمہ اور خطباء نوجوانوں کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
آج کی جنگ اتنی آسان نہیں ہے‘ اس میں بیرونی مداخلت کا کوئی شک و شبہ نہیں رہ گیا۔ اس جنگ کو فورتھ جنریشن وار فیئر کا نام دیا جا سکتا ہے جس کے تحت ملک کی افواج اور عوام میں مختلف طریقوں سے دوری پیدا کی جاتی ہے ۔مرکزی حکومتوں کو کمزور کیا جاتا ہے۔ صوبائیت کو ہوا دے جاتی ہے ، لسانی اور مسلکی فسادات کروائے جاتے ہیں اور عوام میں مختلف طریقوں سے مایوسی اور ذہنی خلفشار پھیلایا جاتا ہے۔ اسکے ذریعے کسی ملک کا میڈیا خریدا جاتا ہے اور اسکے ذریعے ملک میں خلفشار ، انارکی اور بے یقینی کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے۔ آج دشمن پاکستان میں یہ سب کچھ کروا رہا ہے جس کا اعتراف وزیراعظم نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے گزشتہ ماہ اپنے ایک لیکچر میں یہ کہتے ہوئے کیا تھا کہ اگر تم ایک ممبئی اور کروگے تو بلوچستان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ وہ یہ بھی کہہ گئے کہ ہم جارحانہ دفاع کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ یہ پاکستان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں جس میں پاکستان کی معیشت ہو سکتی ہے‘ سیاست اور سکیورٹی ہو سکتی ہے۔ اس پالیسی کے تحت افغانستان میں پاکستان کی پالیسی کو شکست دینا ہو سکتا ہے۔ دوول نے جو کہا‘ وہی بھارت کی طرف سے پاکستان میں مداخلت کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔ اگر ثبوتوں کی بات کی جائے تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف اپنے دورہ امریکہ پر امریکیوں کے سامنے یہ ثبوت رکھ چکے ہیں۔ وائٹ ہائوس میں ہونیوالی دہشت گردی کیخلاف کانفرنس کے اختتام پر وزیر داخلہ چودھری نثارعلی نے پریس بریفنگ میں کہا کہ پڑوسی ملک نے پاکستان میں دہشت گردی کی آگ بھڑکائی ہے۔ ڈی جی‘ آئی ایس پی آرجنرل عاصم باجوہ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ بھارت‘ فاٹا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہا ہے۔ انہوں نے بھارت کو خبردار کیا تھا کہ وہ اس سے باز رہے۔ ڈی جی‘ آئی ایس پی آر کے مطابق بھارت دہشت گردوں کیخلاف اپریشن ضرب عضب کو ناکام بنانے کیلئے یہ سب کچھ کررہا ہے۔ نوازشریف نے گزشتہ روز کہا کہ دہشت گردی کے پیچھے سرگرم ہاتھ بے نقاب کرنے کے ٹھوس ثبوت حاصل کرلئے ہیں۔ ایک تو ہماری سیاسی حکومت پاکستان میں دہشت گردوں کے پیچھے بھارت کا نام لینے سے گریز کرتی ہے‘ دوسرے یہ کہ اگر ثبوت ہیں تو اب تک سنبھال کر کیوں رکھے ہیں۔ ان کو عالمی فورموں اور میڈیا میں کیوں نہیں لایا جاتا۔ دوول کے اعتراف کے بعد تو ایسے ثبوتوں کی بھی ضرورت نہیں رہتی جو وزیراعظم نوازشریف نے نہ جانے کہاں کہاں سے اور کیسے کیسے جتن کرکے اکٹھے کئے ہیں۔ اب آپ اگلا لائحہ عمل طے کریں کہ بھارت کو پاکستان میں مداخلت سے کیسے روکنا ہے‘ یقیناً اس کیلئے ذاتی کاروباری مفادات کی سوچ سے بالاتر ہو کر جرأت و مستحکم خارجہ پالیسی اور سنجیدگی سے کام لینا ہو گا۔ آپ بھارت کا نام نہ لے کر کیا اسے ملک کی سالمیت کیخلاف سازشیں کرنے سے روک لیں گے؟ جو زمینی حقائق ہیں‘ آپ دنیا کے سامنے کھل کر ان کا اظہار کریں اور بھارت کو اپنا دشمن ڈکلیئر کریں۔ اسکے بعد ہی آپ کوئی ٹھوس فیصلہ کر سکتے ہیں کہ جو آپ کے دشمن کے ساتھ کھڑا ہے‘ وہ آپ کا دوست کیسے ہے؟