کیا امریکہ کے ہاں واقعی پاکستان اور بھارت کی یکساں اہمیت ہے

رائٹرزکی رپورٹ کیمطابق امریکی صدر اوباما کے دورہ پر بھارت اور امریکہ ایٹمی تجارتی معاہدے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ادھر وا ئٹ ہاﺅس نے کہا ہے کہ امریکہ کے پاکستان اور بھارت کیساتھ تعلقات ایک دوسرے کی قیمت پر نہیں۔ہمارے لئے دونوں ممالک کی اہمیت یکساں ہیں۔
یہ صرف کہنے کی بات ہے کہ امریکہ کےلئے پاکستان اور بھارت کی یکساں اہمیت ہے۔ عملی طور پر امریکہ کا ہمیشہ بھارت کی طرف جھکاﺅ رہا ہے‘ حتی کہ 71 کی پاکستان بھارت جنگ میں امریکہ بظاہر پاکستان کیساتھ کھڑا تھا۔ اس نے پاکستان کی مدد کیلئے جنگی بحری بیڑہ بھیجنے کا اعلان کیا جو کبھی پاکستان نہ پہنچ سکا۔ یہ بھی بالواسطہ بھارت کی مدد تھی۔ ایٹمی عدم پھیلاﺅ کے پروگرام کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کی ایک جیسی حیثیت ہے۔ دونوں سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے کےلئے تیار نہیں مگر امریکہ اس معاملے میں بھی بھارت کو رعایت دیتا ہے۔ اصولی طور پر عالمی ایٹمی قوانین پر دستخط کرنے تک بھارت کسی ملک سے سول ایٹمی توانائی کے معاہدے نہیں کر سکتا۔ اسکے نہ صرف امریکہ سے ایسے معاہدے ہوئے ہیں بلکہ فرانس، برطانیہ، ہالینڈ اور روس بھی بھارت کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کر رہے ہیں۔ آسٹریلیا کی طرف سے نیوکلیئر فیول کی فراہمی بھی عالمی ایٹمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری طرف امریکہ نہ صرف خود پاکستان کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کرنے پر تیار نہیں بلکہ دوسرے ممالک کو بھی پاکستان کیساتھ اس مد میں پاکستان سے تعاون کی مخالفت کرتا ہے۔ امریکہ کی طرف سے تو گویا بھارت کو غیر اعلانیہ طور پر نیوکلیئر کلب کا ممبر تسلیم کر لیا گیا ہے۔ امریکہ کے ایسے اقدامات پاکستان کیساتھ زیادتی ہیں۔ امریکہ پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی قرار دیتا ہے۔ عملاً ایسا نہیں ہے۔ جب بھی امریکی صدر نے بھارت کا دورہ کیا ساتھ ہی وہ پاکستان بھی آئے۔ اب اوباما پاکستان کو نظر انداز کرکے اسکے پڑوسی ملک کے دورے پر آرہے ہیں۔ یہ بھی امریکہ کا پاکستان کیساتھ امتیازی سلوک ہے۔ پھریہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے ہاں پاکستان اور بھارت کی یکساں اہمیت ہے۔ امریکہ اپنے کردار وعمل سے ثابت کرے کہ پاکستان اور بھارت کی اسکے ہاں یکساں اہمیت ہے۔ اس کیلئے اسے پاکستان کیساتھ بھی وہی ایٹمی معاہدے کرنے ہونگے جو بھارت کیساتھ کر رہا ہے۔اگر یہ بھارت کی ضرورت ہے تو پاکستان کی ضرورت کیوں نہیں؟

ای پیپر دی نیشن