بچوں کے اغواء کی وارداتوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہو گیا۔ لاہور کی ماتحت عدالتوں میں 6 ماہ کے دوران بچوں کے اغواء کے 219 مقدمات پیش کئے گئے۔ 59 بچے صرف کینٹ ڈویژن سے اغواء ہوئے۔
صوبائی دارالحکومت میں بچوں کا اغواء سنگین معاملہ بن چکا ہے جبکہ قانون نافذ کرنیوالے ادارے وسائل ہونے کے باوجود اغواء کاروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ گزشتہ روز بادامی باغ میں شہریوں نے ایک اغواء کار کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر پولیس کے حوالے بھی کیا ہے لیکن پولیس 219 بچوں کا سراغ لگانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ ماضی میں جاوید اقبال نامی شخص بچوں کو اغواء کرنے کے بعد ان سے زیادتی کرتا اور تیزاب میں پھینک دیتا تھا۔ جاوید اقبال کے مرنے کے بعد ایک عرصہ تک بچوں کے اغواء کی وارداتوں میں کمی رہی لیکن اب پھر سے بچوں کا اغواء ایک سنگین مسئلہ اختیار کر چکا ہے۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے سربراہان اور سیاسی رہنما تو مزے کی نیند سوتے ہیں۔ ذرا پوچھیں ان مائوں سے جن کی گودیں اجڑ چکی ہیں۔ ان کی نیند اور دلوں کا سکون چھن گیا ہے۔ انتظامیہ نے افغان بستیوں میں سرچ آپریشن کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس میں تاخیر نہ کی جائے۔ خادم پنجاب‘ آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور قوم کے بچوں کو اپنے بچے تصور کر کے ان کی بازیابی یقینی بنائیں۔