امریکی تھنک ٹینک انٹرنیشنل پیس اینڈ ڈی اسٹیمیشن سنٹر کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان آئندہ پانچ سے دس برسوں میں امریکہ اور روس کے بعد جوہری ذخائر رکھنے والا تیسرا بڑا ملک بن جائیگا۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت بھارت کے 100کے مقابلہ میں پاکستان کے پاس 120جوہری ہتھیار ہیں جن کی تعداد آئندہ پانچ سے دس سال کے عرصہ میں 350تک پہنچ جائیگی کیونکہ پاکستان سالانہ 20وار ہیڈ بنا رہا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان پرامن بقائے باہمی کے آفاقی اصول پر یقین رکھتا ہے اور اس بنیاد پر خطے میں امن کا خواہاں ہے جبکہ اس کے پڑوسی ملک بھارت نے اسکے ساتھ دشمنی اور جنگی جنون بڑھا کر اور سقوط ڈھاکہ کے بعد ایٹم بم بنا کر پاکستان کو بھی اپنی سلامتی کے تحفظ کی خاطر ایٹمی صلاحیتیں حاصل کرنے پر مجبور کیا۔ بے شک ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے معاملہ میں دنیا کا بھارت اور پاکستان کیلئے دوہرا معیار ہے اور امریکہ نے بھارت پر پاکستان جیسی اقتصادی پابندیاں عائد کرانے کے بجائے اسکے ساتھ ایٹمی ٹیکنالوجی کی فراہمی کے معاہدے کئے ہیں جس سے یقیناً پاکستان کی سلامتی کو زیادہ خطرات لاحق ہوئے ہیں چنانچہ اپنی ایٹمی صلاحیتوں کو بڑھانا اس کی مجبوری ہے اور یہ طے شدہ امر ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں کے باعث ہی بھارت اب تک پاکستان پر باقاعدہ جنگ مسلط کرنے سے باز رہا ہے جبکہ مودی دور حکومت میں بھارت کا جنگی جنون پاکستان کی سلامتی کےلئے مزید خطرات پیدا کر رہا ہے۔ اس صورت میں ہم اپنے مضبوط ایٹمی دفاعی حصار کے ذریعے ہی بھارت کی جنگی جنونیت کا توڑ کر سکتے ہیں۔ یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ مضبوط کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے باعث ہماری ایٹمی صلاحیتوں، استعداد اور ایٹمی ہتھیاروں میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے جس سے قوم کو اطمینان ہے کہ عساکر پاکستان وطن عزیز کےلئے اپنی جانیں نچھاور کرنے کے جذبے کے ساتھ ساتھ دشمن کی آنکھ پھوڑنے کی بھی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔ اگر امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ پر دنیا میں کھلبلی پیدا ہوئی ہے تو وہ عالمی امن کی خاطر بھارتی جارحانہ عزائم کو لگام دے۔ بھارتی جنونیت کے پیش نظر دفاع وطن کیلئے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سمیت کوئی بھی قدم اٹھانا بہرصورت ہماری تو مجبوری ہے۔