اسلام آباد (اے پی پی) وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ بجٹ عوام دوست ہے‘ ٹیکسوں میں اضافے کا غریب عوام اور متوسط طبقے پر اثر نہیں پڑیگا‘ گردشی قرضوں کے خاتمہ کیلئے نوٹ نہیں چھاپیںگے۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا عام صارفین پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔ 200 سے کم یونٹ استعمال کرنے والے بجلی صارفین کو ریلیف دیں گے‘ بجلی کی مد میں روزانہ دو ارب روپے سبسڈی دینا پڑتی ہے۔ ٹیکس اور آمدنی میں اضافہ ملک کیلئے لائف لائن ہے۔ بینک شفاف طریقے سے نوجوانوں کو قرضے فراہم کرےں گے یہ قرضے بلا تفریق فراہم کئے جائیںگے‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ماہانہ دس ہزار فراہم کریںگے اور انہیں ایک سال ٹریننگ دیںگے اور متوسط کو ریلیف دیا جائے گا۔ غریبوں کی فلاح وبہبود کیلئے انکم سپورٹ پروگرام جاری رہے گا۔ ٹیکس نہ دینے والوں کو سیلز ٹیکس کے ذریعے ٹیکس نیٹ میں لائیںگے۔ اس سے قبل بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں ورثے میں ٹوٹی پھوٹی معیشت مل رہی ہے لیکن ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس کی بحالی اور تعمیر نو کا چیلنج بالکل سامنے سے قبول کرینگے۔ مسائل سے پہلو تہی کا راستہ اپنائیں گے اور نہ ہی اپنے سروں کو ریت میں چھپائیں گے ایسا کبھی نہیں ہوتا، عظیم مقاصد کو ان کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور مشکلات کو عبور کئے بغیر حاصل کیا جاسکے لہذا ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم نے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا ہے جو مصائب اور مشکلات کا حامل ہے لیکن اگر اسے عبور کرلیا جائے تو ہماری منزل خوشحالی اور ترقی ہے۔ ایسی خوشحالی اور ترقی جو ممکنات کی دنیا اور ہم میں موجود استعداد سے مطابقت رکھتی ہے مجھے ایسا ہی اپنے عظیم قائد محمد علی جناح کی زندگی میں نظر آتا ہے جب وہ اپنی صحت کو درپیش خطرات کو پس پشت ڈال کر ڈھاکہ پہنچے اور وہاں بڑھتی ہوئی اس بے چینی کو دور کیا جو ایک نوازئیدہ مملکت کو درپیش تھی اپنی ایک طویل لیکن روح پرور اور ولولہ انگیز تقریر جو انہوں نے ایک بہت بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے 21مارچ 1948 ءکو کی اس کے اختتام پر انہوں نے فرمایا ” آخر میں میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ یکجا ہوجائیں تکالیف ، قربانیوں کو اور مشکلات کو برداشت کریں اپنے عوام کے اجتماعی مفاد کیلئے مشکلات کی کوئی حد سخت محنت کی کوئی انتہا اور قربانیوں کا کوئی حصہ ملک اور ریاست کی مجموعی فلاح کیلئے کافی نہیں ہے صرف اسی طرز عمل پر چلتے ہوئے آپ کیلئے ہر ممکن ہوگا کہ پاکستان کو دنیا کی پانچویں بڑی ریاست بنا سکیں صرف آبادی کے لحاظ سے نہیں جیسا کہ ابھی ہے لیکن قوت میں تاکہ اقوام عالم میں پاکستان عزت اور افتخار کا مقام حاصل کرسکے ۔ حیرت انگیز طور پر میں نے یہ دیکھا کہ علامہ محمد اقبال جو تصور پاکستان کے بانی ہیں انہوں نے بھی ایسا پیغام ہمارے لیے چھوڑا ہے جب انہوں نے اپنے شعر میں ہماری صلاحیتوں اور استعداد کو بیان کیا ہے ۔”عجب نہیں کہ بدل دے اسے نگاہ تیری“ ”بلا رہی ہے تجھے ممکنات کی دنیا“ آئیے ہم سب مل کر قائداعظم اور علامہ اقبال کے بتائے ہوئے راستوں پر سفر کا آغاز کریں۔ وزیرخزانہ نے بجٹ کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا معاشی پالیسی بیان قراردیا اور کہا کہ یہ بجٹ ہمارے انتخابی منشور پر مبنی اورقوم سے کئے گئے ان وعدوں کی تکمیل کا مظہر ہے جن کی بنیاد پر قوم نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ نئی منتخب حکومت پہلا بجٹ پیش کر رہی ہے، یہ صرف ایک بجٹ کے پیش کرنے کا موقع نہیں بلکہ یہ ملک میں پرامن انتقال اقتدار کا لمحہ ہے جب ایک منتخب حکومت اپنی مدت کی تکمیل کے بعد اور ملک میں انتخابات کے انعقاد کے بعد ایک نئی جمہوری حکومت اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکی ہے۔ معیشت کے سلسلہ میں وزیراعظم نے اصلاحات کے ایک جامع پروگرام کا اعلان کیا جو اس کو ایک نئی جلا بخشے گا۔ ترقی کے عمل کو تیز تر، قیمتوں میں استحکام پیدا، نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کریگا اور ملک میں نہایت ضروری انفراسٹرکچر کی تعمیر کریگا۔ انہوں نے کہا کہ آج کی ٹوٹی پھوٹی معیشت ہمیں ورثے میں ملی۔ کاش کوئی ایسا کارکردگی کا اشاریہ ہوتا جس سے متعلق میں یہ کہہ سکتا کہ اس معیشت کی دیکھ بھال بہترین قومی مفاد میں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ درحقیقت دیکھ بھال کا عمل موجود ہی نہیں تھا اور یوں لگتا ہے کہ معیشت کا نظام ”آٹو پائلٹ“ پر چل رہا تھا۔ جمہوری حکومت کیلئے ایسا ورثہ پیچھے چھوڑنا سیاست دانوں کے باب میں کوئی اچھا بیان نہیں۔ اس تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو حالیہ انتخابات کے نتائج عوامی احتساب کا عمل تھا اور انہوں نے ایک واضح فیصلہ دیکر یہ طے کر دیا کہ گذشتہ پانچ سال کی کارکردگی انہیں قابل قبول نہیں۔ وزیر خزانہ نے گذشتہ پانچ سالوں میں معیشت کی کارکردگی کی زبوں حالی کے حوالے دیکر کہاکہ اس عرصہ میں اوسطاً شرح نمو 3 فیصد سے کم رہی ہے جو ہماری استعداد سے بہت کم ہے، اگر آبادی میں اضافہ کی شرح کو سامنے رکھا جائے جو قریباً 2 فیصد ہے تو اوسطاً ہماری فی کس آمدنی میں ایک فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو کسی طرح بھی اطمینان بخش نہیں۔ افراط زر کی اوسطاً شرح 13 فیصد رہی جس کی پچھلی چار دہائیوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ شرح مبادلہ جو تقریباً 62 روپے فی ڈالر تھی وہ اب 100 روپے فی ڈالر ہو گئی ہے۔ سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر جو 11.1 ارب ڈالر تھے وہ کم ہو کر 6.3 ارب ڈالر رہ گئے ہیں، ملک کا مجموعی قرضہ 31 مارچ 2008ءکو 5602 ارب روپے تھا جس کی متوقع مقدار 30 جون 2013ءکو 14284 ارب روپے ہو گی۔ اس کا مطلب ہے کہ اس دوران مجموعی قرضے میں اڑھائی گنا اضافہ (255 فیصد) ہوا اور اگر ہم مجموعی قرضے کو مجھوی قومی آ±دنی کے تناسب سے بھی دیکھیں تو آغاز کار میں یہ تناسب 52.6 فیصد تھا جو رواں مالی سال کے آخر تک بڑھ کر 63.5 فیصد متوقع ہے یعنی اس تناسب میں بھی قریباً 10 فیصد کا خطیر اضافہ ہوا ہے اور فی الوقت یہ اس حد کو بھی عبور کر چکا ہے جو مالیاتی ذمہ داری اور قرضہ کی حد 2005 کے ایکٹ میں طے کی گئی ہے۔ ملک کا مجموعی قرضہ 1947 سے 30 جون 1999 کو تقریباً 3000 ارب روپے تھا۔ یقیناً یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے لیکن ہم اس وجہ سے نہ مایوس ہیں اور نہ ہی بے حوصلہ۔ درحقیقت حالات کو بہتر کرنے کیلئے جس عزم اور حوصلے کی ضرورت ہے معیشت کی زبوں حالی کے صحیح ادراک نے ہمارے اس عزم کو مزید پختہ کر دیا ہے۔ انہوں نے نئی حکومت کا معاشی تصور پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ معیشت کی تعمیر نو میں ہماری رہنمائی کرے گا۔ حکومتوں کی کارکردگی کچھ قابل رشک نہیں رہی کیونکہ آمدنی سے زیادہ اخراجات ہماری معاشی زندگی کا معمول رہا ہے۔ ٹیکس محاصل میں اضافہ کے ضمن میں اقدامات کئے جا رہے ہیں، افراط زر میں کمی کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات قیمتوں میں موجود دباﺅ کو ختم کرنے میں مدد دیںگے، ان میں مالیاتی خسارے میں کمی افراط زر کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔ ہم قیمتوں پر مسلسل نگاہ رکھیںگے تاکہ ضروری اشیاءکی بروقت فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ وسیع پیمانے پر جمعہ اور اتوار بازار سارے ملک میں کھولے جائیںگے۔ جہاںبھی ضرورت ہوگی درآمدات کے ذریعے متبادل رسد کی فراہمی کی جائے گی تاکہ مقامی قلت کو دور کیا جاسکے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم عوامی بچتوں اور نسبتاً غیر ملکی قرضوں کے ذریعے سے مالیاتی خسارے کو پورا کریںگے جس سے قرضوں کے ذریعے سے مالیاتی خسارے کو پورا کریںگے۔ جس سے قرضوں کی ادائیگی میں بھی سہولت پیدا ہوگی۔ عوام کیلئے نئی بچتوں کی سکیموں کو متعارف کرایا جائے گا جن کے ذریعے وہ حکو متی سیکورٹیز تک رسائی حاصل کر سکیںگے جو کہ فی الحال بنکوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ یہاں پر ان کا منافع زیادہ ہوتا ہے اور چھوٹے کھاتہ داروں تک معمولی اضافہ پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ قرضہ مینجمنٹ آفس کی تنظیم نو کر رہے ہیں اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے حامل افراد کی تعیناتی کے ذریعے ہم اپنے مجموعی قرضے کو بہتر طریقے سے اور کم لاگت پر منظم کرنے کی کوشش کریںگے۔ سٹیٹ بینک سے قرضوں پر انحصار کم کیا جائے گا۔ ہمیں یقین ہے لوڈشیڈنگ میں کمی شروع ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں موٹر ویز کا جال بچھا دینگے۔ انہوں نے بتایا کہ پیداوار ڈویژن کی دو جاری سکیموں کے لئے 30 کروڑ روپے، خارجہ امور ڈویژن کی دو جاری سکیموں کے لئے 25 کروڑ 52 لاکھ، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے 54 جاری منصوبوں پر 2 ارب 17 کروڑ 25 لاکھ وزارت صنعت کے 25 منصوبوں کے لئے73 کروڑ 54 لاکھ روپے، فنانس ڈویژن کے 55 منصوبوں کے لئے 13 ارب 7 کروڑ 41 لاکھ، تعلیم و تربیت ڈویژن کے 9 منصوبوں کے لئے 5 ارب 23 کروڑ 71 لاکھ، بجلی کے شعبے میں 82 ارب 92 کروڑ 10 لاکھ روپے، پٹرولیم قدرتی وسائل کے منصوبوں کے لئے 5 کروڑ، وزارت اطلاعات کے منصوبوں کے لئے 49 کروڑ 27 لاکھ اقتصادی امور ڈویژن کی ایک سکیم پر 10 کروڑ 45 لاکھ سے زائد، شماریات ڈویژن کے دو منصوبوں پر 22 کروڑ، سپارکو کے دو منصوبوں کے لئے 70 کروڑ مختص ہونگے۔ ترقیاتی پروگرام میں 3779.678 ملین روپے جاری ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے جائیں گے۔ حکومتی اداروں کی کارکردگی میں اضافے، تربیتی ورکشاپس، تحقیقی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے ایک کروڑ 50 لاکھ روپے کا بجٹ مختص ہو گا۔
اسحقٰ ڈار / تقریر