پروفیسر مولانا محمد یوسف خان
اللہ تعالیٰ قرآن مجید سورة الحج میں ارشاد فرماتے ہیں:۔
”اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ اللہ کا نام لیں ، ان جانوروں پر جو ہم نے ان کو عطا کئے ہیں“
قرآن مجید میں قربانی کیلئے تین لفظ آئے ہیں۔ ایک نسک اور دوسرا نحر تیسرا قربان ۔
نسک: یہ لفظ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے کہیں عبادت، کہیں اطاعت اور کہیں قربانی کے لئے جیسے سورہ حج کی آیت 34 میں فرمایا:۔
”اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کر دی ہے“
یہاں یہ لفظ جانور کی قربانی کے لئے ہی آ رہا ہے کیونکہ اس کے فوراً بعد من بھیمتہ الانعام کا لفظ ہے یعنی ان چوپایوں پر اللہ کا نام لے کر قربانی کریں جو اللہ نے ان کو عطاءکئے۔ دوسرا لفظ قربانی کے لئے قران مجید میں نحر کا آیا ہے جو سورة الکوثر میں ہے:۔
”یعنی اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی کریں“
اور قربانی کا لفظ قرآن مجید میں سورہ مائدہ کی 27ویں آیت میں آیا ہے جہاں حضرت آدمؑ کے دونوں بیٹوں ہابیل اور قابیل کے واقعہ کا ذکر ہے۔
”یعنی آپ ان لوگوں کو آدم کے دو بیٹوں کا سچا واقعہ سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی“
ہم اردو میں لفظ قربانی ہی عام طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں قربانی کا ایک خاص مفہوم ہے جس کا تذکرہ امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں فرمایا ہے کہ:۔
”یعنی قربانی ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، چاہے وہ جانور ذبح کرکے ہو یا صدقہ و خیرات کرکے۔ چنانچہ عرف عام میں قربانی کا لفظ جانور کی قربانی کے لئے بولا جاتا ہے۔ قرآن حکیم کے مطابق کسی حلال جانور کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کرنا آدمؑ ہی کے زمانے شروع ہوا۔ قرآن مجید کے مطابق پہلے انبیاءکے دور میں قربانی کے قبول ہونے یا نہ ہونے کی پہچان یہ تھی کہ جس قربانی کو اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتے تو ایک آگ آسمان سے آتی اور اس کو جلا دیتی۔ جب رسول اللہ نے مدینہ طیبہ میں مقیم یہودیوں کو ایمان لانے کی دعوت دی تو سورہ آل عمران کی آیت 183میں بیان فرمایا کہ انہوں نے کہا:۔
”یعنی اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ طے کر لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک کہ وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا لے“
حالانکہ یہ یہودکی انتہائی غلط بیانی تھی لیکن امت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ قربانی کا گوشت ان کے لئے حلال کر دیا گیا لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت فرما دی کہ قربانی کا مقصد اور اس کا فلسفہ گوشت کھانا نہیں بلکہ ایک حکم شرعی کی تعمیل اور سنت ابراہیمی ؑ پر عمل کرتے ہوئے ایک جان کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہے۔ چنانچہ واضح الفاظ میں فرمایا:۔
”یعنی اللہ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے“
یعنی قربانی کا گوشت کھانا کوئی مقصد نہیں بلکہ سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے خالص اللہ کے لئے جان قربان کرنا اصل مقصد ہے قرآن حکیم میں ارشاد ہوا:
”یعنی جب ابراہیمؑ کا بیٹا اسماعیل ؑاس قابل ہو گیا کہ باپ کے ساتھ چل کر ان کے کاموں میں مدد گار بن سکے تو حضرت ابراہیمؑ نے کہا: اے میرے پیارے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، بتاﺅ کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ سعادت مند بیٹا بھی تو خلیل اللہ کا بیٹا تھا۔ کہنے لگے: ابا جان آپ وہ کام کر گزریں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ آپ انشاءاللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
”جب باپ بیٹا قربانی کے لئے تیار ہو گئے اور باپ نے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے چہرہ کے بل کروٹ پر لٹا دیا“ تو ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
”اے ابراہیم آپ نے خواب کو سچا کر دکھایا، اس کے ساتھ ہی ایک دنبہ حضرت اسماعیلؑ کے بجائے قربانی کے لئے نازل کر دیا“
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر ابراہیم خلیل اللہ کے اس عمل کو پسند فرما کر قیامت تک ان کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے قربانی ہر صاحب استطاعت پر واجب کر دی، ابراہیم خلیل اللہ کے کارناموں میں سے جو چیزیں کسی خاص مقام کے ساتھ مخصوص ہیں وہ صرف ان مقامات پر حاجی حضرات کے لئے خاص کر دی گئیں، جس میں جمرات ( کنکریاں مارنا) اور صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا اور قربانی کرنا تمام امت مسلمہ کے استطاعت رکھنے والے افراد کے لئے واجب فرمایا۔
چنانچہ خود رسول اکرم اور تمام صحابہؓ اور پوری امت کے مسلمان ہر خطے اور ملک میں اس پر عمل کرتے رہے اور قربانی کو شعائر اسلام میں شمار کیا گیا۔ سورة حج کی آیت 36 میں فرمایا:۔
”یعنی قربانی کے اونٹ اور گائے کو ہم نے شعائر اللہ یعنی اللہ کی عظمت کا نشان بنایا ہے اس میں تمہارے لئے خیر ہے“
اس لئے قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق قربانی کا فلسفہ اور اس کی حقیقت یہ معلوم ہوئی کہ انسان قربانی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے لئے جان قربان کرتا ہے، اس میں گوشت کھانا مقصود نہیں اور نہ اس میں ریا کاری دکھاوا آئے اور نہ کوئی اور وسوسہ آنے پائے، یہ خاص اللہ کے لئے جان اور مال کو قربان کرنا ہے۔ اور رسول اللہ کو یہ حکم دیا گیا جو امت کے ایمان کا حصہ ہے کہ:
”آپ کہہ دیجئے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میرا مرنا اللہ کے لئے ہی ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے“
اللہ رب العزت ہمیں اس اخلاص اور اس جذبہ سے قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،