لاہور(ندیم بسرا) پنجاب ڈرگ ایکٹ کی ترمیم کے نفاذ میں عجلت اور سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لئے بغیر نافذ کرنے کے تنازعے کو مزید گھمبیر بنا دیا۔ ادویہ سازی کی صنعت سے وابستہ تمام افراد مشاورت نہ کرنے کا رونا روتے رہے جبکہ حکومت جعلی ادویات کے خاتمے کے اقدامات میں تیزی لانے کیلئے ایکشن میں رہی، ایک دوسرے کو سننے مذاکرات نہ کرنے نے معاملات کو مزید آگے بڑھا دیا ہے نتیجتاً صوبے بھر کے تمام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حوالے سے پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچرز ایسوسی ایشن پنجاب کے وائس چیئرمین ڈاکٹر ریاض احمد نے نوائے وقت کو بتایا کہ پنجاب ڈرگ ایکٹ 1976 میں ترمیم سے قبل ایک ’’سول لائ‘‘ تھا جس کو حکومت نے ’’کریمنل لائ‘‘ میں تبدیل کردیا۔ انہوں نے بتایا پہلے ایک جج کے پاس اختیار تھا کہ وہ کسی بھی مقدمے میں جرمانہ کرے یا سزا سنادے مگر نئے قانون میں سزا اور جرمانہ بیک وقت ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کسی مقدمے میں جرم ثابت ہونے سے ہی سزا سنا دی جائے۔ نئی ترمیم میں کم سے کم سزا 14 روز ہے مگر اس کی ضمانت نہیں ہے یعنی 14 روز کی سزا بھی ناقابل ضمانت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جعلی ادویات کے خلاف ہیںہم بھی چاہتے ہیں کہ جعلی ادویات کے خلاف قانون سخت ہو مگر اس کا مطلب نہیں کہ تمام انڈسٹری کو یرغمال بنالیا جائے۔ دوسری طرف ہربل اور یونانی ادویات سازی سے منسلک افراد بھی اس ترمیم سے شدید پریشان ہیں۔ پاکستان طبی فارما سیوٹیکل مینوفیکچرز ایسوسی ایشن (PTPMA)کے چیئرمین عرفان شاہد نے بتایا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پوری دنیا میں ہربل اور یونانی ادویہ سازی کی صنعت کو فوڈ کی انڈسٹری میں شامل کیا جاتا ہے مگر (2012) میں اس وقت کی وزیر صحت ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے آلٹرنیٹو اور یونانی، ہربل ادویات کو ڈرگ ایکٹ میں شامل کردیا اور ڈریپ (DRAP) نے ہماری صنعت کو ڈرگ میں شامل کردیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم چکن آئٹمز سے ادویات بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نئے قانون میں ہماری صنعت پر یہ پابندی لگائی گئی ہے کہ ہومیو پیتھک یا طبی ادویات صرف فارماسسٹ ہی بنا سکتا ہے جبکہ ہماری انسپکشن کا اختیار ڈرگ انسپکٹرز کو دیا گیا ہے جن کو طب یا ہومیو پیتھک کے متعلق کوئی تجربہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونانی یا طبی یونٹس کیلئے جگہ 2 کنال رکھی گئی ہے۔ ادویات کی تیاری کیلئے ہمیں زیادہ جگہ درکار نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ باقاعدہ مشاورت کرکے قانون پر عملدرآمد کیا جائے۔ واضح رہے کہ اس قانون میں ترمیم سے ٹاسک فورس کو لیگل حیثیت دی گئی ہے جو قانون سازی بھی کرسکتی ہے۔ صوبائی حکومت کسی کو بھی انسپکٹر مقرر کرسکتی ہے۔ اس قانون میں وہ ادویات جن کیلئے ٹمپریچر کنٹرول کرنا ضروری ہے وہ بھی ادویات آئیں گی جن کیلئے ٹمپریچر ضروری نہیں ہے۔ پاکستان کوالٹی کنٹرول بورڈ صوبائی حکومت اپنے اختیارات کسی بھی پولیس اور ایف آئی اے کو دے سکتی ہے۔