ہماری منزل؟

آخر ہم دنیاپر یہ ثابت کرنے کے لئے کیوں تلے ہیں کہ ہمارے رہنما بے رہرو اور ہم بے سمت اور شترِ بے مہار قوم ہیں۔ کام کم اور ڈرامے زیادہ کرتے ہیں جن کو کارناموں کا نام دیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے پر الزام، دشنام اور اتہام کو مقصدِ حیات بنا لیا ہے۔ ہمارے روئیے خوفناک ،المناک اور اندوہناک حد تو شرمناک ہو گئے ہیں۔ عباس ٹاﺅن کراچی میں ایک اور ستم ٹوٹا دو سو افراد خاک میں لتھڑے، خون میں نہائے، آگ میں جھلسے، اعضا کٹے، جسم پھٹے۔ قیامت وکربلا اور کس کا نام ہے؟ یہ ماتم کی گھڑی ہے، اپنے اعمال اور کردار کا جائزہ لینے کا وقت ہے۔ میڈیا میں خبریں ہیں” پورے ملک میں جنوبی افریقہ سے ٹی ٹونٹی میچ اور سیریز جیتنے پر جشن منایا گیا“۔ ”شاباش“ ہے، جشن منانے اور ایسا تاثر دینے والوں پر۔ المناک، دہشتناک اور وحشتناک موت پر شہنائیاں نہیں بجتیں ماتم ہوتا ہے، سوگ منایا جاتاہے۔ اس پر بھی رحمن ملک نے سیاست چمکائی۔ وہ کہتے ہیں پنجاب 537 دہشت گردوں کو گرفتار کر لے تو ملک میں امن ہو جائے گا۔ صدر آصف علی زردری بھی پنجاب میں نان سٹیٹ ایکٹرز کی بات کرتے ہیں۔ رحمن ملک اور ان کی ایجنسیوں کو ملک کے کسی بھی حصے میں موجود دہشت گردوں کی گرفتاری سے کس نے روکا ہے؟۔ خود مرکز میں انہی لوگوں سے اتحاد کیا جا رہا ہے جن کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ کیا پنجاب میں موجود رحمن ملک کے قرار دئیے جانے والے دہشت گرد ان لوگوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں جن کے آخری فرد کے خاتمے کا بھی رحمن ملک عزم ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ اب حکومت ان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ امت کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں رحمن ملک کو نظر آنے والے دہشت گردوں کی مدد سے پیپلز پارٹی نے 2008 ءکے انتخابات میںدو درجن سیٹوں پر کامیاب حاصل کی اور ان میں سے کئی آج بھی وزیر ہیں۔ سیاسی مفادات کی خاطر الزام تراشی، اتہام بازی اور دشنام طرازی کے مثبت نہیں بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ اس سے وقتی طور پر تو شاید رائے عامہ کو گمراہ کر لیا جائے، حقیقت آشکار ہونے پر تف تف اور تھوتھو ہو گی۔ اگر دہشت گردوں کے ساتھ ہاتھ ملانے، ان کو تحفظ دینے اور ساتھ بٹھانے سے امن قائم ہو سکتا ہے، خونریزی رک سکتی ہے تو رحمن ملک یہ فارمولا پورے ملک میں آزمائیں۔ پورا ملک دہشت گردی کی آگ میں کئی سال خصوصاً نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افغانستان پر یلغار کے باعث جل رہا ہے۔ ن لیگ تو پنجاب میں پانچ سال قبل اقتدار میں آئی اور ان میں تین سال پیپلز پارٹی بھی اس کے ساتھ رہی۔ دہشت گردوں کی مذکورہ لسٹیں کیا راجہ ریاض نے شہباز شریف کی تجوری سے اٹھا کر یا چرا کر دی ہیں؟۔دہشت گردی واقعی ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس کے ساتھ نمٹنے کے لئے دانشمندی اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، سیاست بازی اور شعبدہ بازی کی نہیں۔ طالبان نے حکومت کے ساتھ مشروط مذاکرات کی پیشکش کی۔ دہشت گردی سے متاثر ہونے والوں میں اے این پی سرِفہرست ہے۔ اس نے اے پی سی بلا کر مذاکرات کی حمایت کی۔ پھر مولانا فضل الرحمن نے 28 فروری کو آل پارٹیز کانفرنس بلائی۔ اس میں تمام حکومتی پارٹیوں سمیت 32 جماعتوں نے شرکت کی نواز شریف اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی موجود تھے۔ عمران خان نے اس اے پی سی کو شعبدہ بازی قرار دے کر کچھ غلط نہیں کہا۔ حکومتی پارٹیاں آخر کس کو کہہ رہی تھیں طالبان سے مذاکرات کرو۔ پہلے سے موجود قبائلی امن جرگے کو وسعت دی جائے۔ شہیدوں اور زخمیوں کیلئے شہداءٹرسٹ بنایا جائے۔ سیاسی و مذہبی قائدین کی رہنمائی میں گرینڈ قبائل جرگہ طالبان سے مذاکرات شروع کرے۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ ان مذاکرات کی حمایت کریں گے جن سے ملک میں آئین اور قانون قائم ہو۔ اس کانفرنس میں ہر مقرر نے اپنی اپنی ڈفلی بجائی۔ تنازعہ تو طالبان اور امریکہ کے درمیان ہے ۔آپ مذاکرات امریکہ کو نظرانداز کرکے کرنا چاہتے ہیں۔ لڑ اور مر فوج رہی ہے اس کو باہر بٹھا کر جو مذاکرات ہوں گے وہ کتنے کامیاب ہوں گے؟
ہمارے سیاستدان اس دہشت گردی کوکیش بھی کرا رہے ہیں۔ حالات کی ناسازگاری کا جواز بنا کر الیکشن کو ایک سال موخر کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ ایک لمحے کو انتخابات یقینی نظر آتے ہیں تو دوسرے لمحے ابہام پیدا اور سوالیہ نشان کھڑا ہو جاتا ہے۔ صدر آصف علی زرداری فرماتے ہیں کہ انتخابات میں تاخیر نہیں ہو گی۔ یہ تو ان کا بیان ہے وہ تحریری معاہدوں پر جو کہتے ہیں بیان کی اس کے سامنے کیا ساکھ اور اعتبار ہو گا؟ فوج نے بروقت انتخابات کی حمایت کی ہے جس کے سربراہ پر آئین کی پاسداری کا دورہ پڑارہتا ہے۔ سپریم کورٹ بڑی کمٹڈ نظر آتی ہے جس کی اس حکومت نے کبھی سنی ہے نہ مانی ہے۔ الیکشن کمشن کے سارے ممبران سیاسی حکومتوں کے نمائندوں سے زیادہ پروردہ ہیں۔ ان کے چیف نے بڑے دھڑلے سے شفاف انتخابات کا ڈھول بجایا۔ اب جعلی ڈگریوں کے کھوبے میں پھنس گئے ہیں۔ جعلی ڈگریوں کی چیکنگ کا اختیار پارلیمانی وفد کے گھورنے پر ہائر ایجوکیشن کمشن کے سپرد کر دیا جو اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے۔ اس سے بہتر تھا کہ فخرو بھائی سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کو یقینی بنانے کے لئے ہر پارلیمنٹیرین کو کہہ دیں بھئی خود ہی اپنی ڈگری کی تصدیق کر دو۔ ایک انتخابات کے بروقت انعقاد کا ابہام دور نہیں ہو رہا دوسرے الیکشن کمشن اپنے ہی عہد و پیمان سے جس طرح پسپائی اختیار کر رہا ہے الیکشن ہوئے تو ان کی ساکھ بھی سوالیہ نشان بنی رہے گی۔ ویسے ساکھ تو ہمارے ہاںاداروں نہ شخصیات کی یکساںلڑھکی ہوئی ہے۔ صدر صاحب ایران کے ساتھ گیس معاہدے کے لئے امریکہ کو للکار رہے ہیں۔ یہ للکار اس وقت سنائی دی جب حکومت کی آئینی مدت کے خاتمے میں چند سانسیں بچی ہیں۔ پھر امریکہ جانے اور نگران حکومت اور اس کے بعد زرداری صاحب سے حلف لینے والے۔۔۔ نئے صوبوں کا معاملہ لٹک گیا لیکن اس سے پیپلز پارٹی نے جو کشید کرنا تھا کر لیا۔ ہر بات سیاسی مفاد کو پیش نظر رکھ کر کی جا رہی ہے۔ پنجاب والے میٹرو پراجیکٹ دکھاتے اور ایمنسٹی سے شفافیت کے معاہدوں کا باجا بجاتے ہیں تو مرکز والے خود تیل کی قیمت بڑھا کر واپس لینے کا ڈرامہ رچاتے ہیں۔آخر ہم کس طرف جارہے ہیں؟۔اسی طرف جدھر توقیر صادق صاحب گئے؟کوئی دھڑلے سے رشوت لیتا اور کوئی بڑے فخر سے دیتا ہے۔بورے والا وہاڑی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص عامر نے آج کہا ہے کہ توقیر صادق کو 9سی این جی سٹیشنوں کی منظوری کے لئے دو کروڑ 70 لاکھ نذرانہ دیا۔ذرا سوچیئے ہماری منزل کیا ہے، یہی جس کی طرف ہم آنکھیں بند کر کے گامزن ہیں؟؟؟

ای پیپر دی نیشن