”قانون دان اقبال“

بیرسٹر اقبال کی وکیلانہ قابلیت بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اقبال کے مقدمات سے متعلق ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے پچاس فیصد سے زیادہ مقدمات میں کامیابی حاصل کی۔ یہ کامیابیاں انہوں نے اپنے وقت کے نامی گرامی وکلاءکے مقابلے میں حاصل کیں۔ ان قانون دانوں میں بیرسٹر سر محمد شفیع، بدرالدین قریشی، مسٹر محمد دین (بعد میں جسٹس)، بیرسٹر خواجہ ضیا¿الدین، سید محسن شاہ (بعد ازاں جسٹس)، گوکل چند، بھگت ایشو داس، مسٹر گنپت رائے، برج لال، شیخ عمر بخش، عزیز احمد، سرفضل حسین، بھگت رام پوری، کنور نارائن، رائے بہادر لالہ، فقیر چند، موتی ساگر (بعد ازاں جسٹس)، بلونت رائے، لالہ کشن چند، نندلال، رائے بہادر لالہ کپور، رام بھاج دتہ، کالندہ رام، سردار تیجا سنگھ اور دیگر بہت سے بڑے نام ہیں۔

بیرسٹر اقبال کے برائے نام وکیل ہونے کے مفروضے کی تردید کےلئے ان کی پیشہ ورانہ شہرت کی وسعت کا ثبوت بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ مقدمات اقبال کے دستیاب ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ بطور وکیل ان کا نام ہندوستان کے ایک وسیع علاقے میں معتبر گردانا جاتا تھا اور دور دراز اضلاع کے مو¿کلین اپنے مقدمات کی پیروی کے لئے اقبال کو اپنا وکیل مقرر کرتے تھے۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق ضلع لاہور اور اپنے آبائی ضلع سیالکوٹ کے علاوہ جن اضلاع کے مو¿کلین نے اقبال کو چیف کورٹ میں اپنا وکیل مقرر کیا تھا ان میں ضلع سرگودھا، راولپنڈی، ملتان، انبالہ، جہلم، اٹک، شاہ پور، لدھیانہ، جالندھر، ہوشیار پور، کانگڑہ، حصار، گورداسپور، فیروز پور، منٹگمری (اب ساہیوال)، دہلی، گوجرانوالہ، مظفر گڑھ، لائل پور (اب فیصل آباد) گجرات اور کیمبل پور کے علاوہ ریاست کرنال اور ریاست جموں کشمیر کے مو¿کلین شامل ہیں۔ایسی پزیرائی ناکام نہیں انتہائی قابل وکیل ہی کی ہوسکتی ہے۔
کتاب ”قانون دان اقبال“ کے مصنف ظفر علی راجا کو اپنی اس تحقیق اور تلاش کے دوران بیرسٹر اقبال کے حوالے سے 103 شائع شدہ مقدمات تک رسائی ہوئی۔ بیرسٹر اقبال کے بارے میں یہ بات بھی غلط طور پر روایت کی جاتی ہے کہ وہ زیادہ تر فوجداری پریکٹس کیا کرتے تھے۔ اقبال کے جن ایک سو تین مقدمات کے ریکارڈ تک رسائی ہوئی ہے ان میں 95 فیصد سے زائد مقدمات کی نوعیت دیوانی قوانین سے تعلق رکھتی ہے۔
سر میاں محمد شفیع کا لاہور میں قانون اور وکالت میں بڑا نام تھا۔ اقبال اور میاں شفیع کے گہرے مراسم تھے۔ سر شادی لال کو چیف جسٹس بنانے کی وائسرائے ہندسے سفارش میاں شفیع نے کی تھی۔ چیف جسٹس بننے کے بعد شادی لال اور میاں شفیع کی دوستی برقرار نہ رہ سکی۔ شادی لال بیرسٹر اقبال کو میاں شفیع کی مخالفت پر لانے کے لئے کمربستہ ہوگئے لیکن اقبال اس کی باتوں میں نہ آئے بلکہ اسکی سازشوں کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔۔ شادی لال نے ایک موقع پر کہا ”مجھے خطابات کے لئے سفارش کیلئے کہا گیاہے۔ میں آپ کے خان صاحب کے خطاب کی سفارش کرنا چاہتا ہوں۔“ اقبال نے یہ پیشکش ٹھکرا دیا۔ ایک روز شادی لال کا ملازم علامہ اقبال کے گھر آیا اور پیغام دیا کہ چیف جسٹس آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ علامہ نے کہا کہ اگر خطاب دینے کی بات کرنی ہے تو ملاقات کی ضرورت نہیں۔ اس پر بھی شادی لال کا لال پیلا ہونا فطری امر تھا۔ اقبال نے شادی لال کی طرف سے دیا جانے والا خطاب تو قبول نہ کیا تاہم وائسرائے ہند نے آپ کو سر کا خطاب ضرور دے دیا۔”خان صاحب“ سے کہیں برتر یعنی ”سر“ کا خطاب جو کہ خود چیف جسٹس شادی لال کو حاصل تھا، بیرسٹر اقبال کو عطا کرنے کا اعلان ہوا تو جسٹس شادی لال کی ناگواری میں مزید اضافہ ہو گیا ہو گا۔ دیگر بھی ایسے کئی واقعات ہوئے جو شادی لال کی اقبال سے عناد اور کدورت کا سبب ہے۔
مولانا عبدالمجید سالک کا بیان ہے کہ اقبال کے حاسد، حکام اعلیٰ کو اقبال سے بدظن کرنے میں ہمیشہ مصروف رہتے تھے لیکن نواب ذوالفقار علی خان ان تمام فتنہ انگیزیوں کے سدباب کے لئے سینہ سپر رہا کرتے تھے اور چاہتے تھے بیرسٹر اقبال عدالت عالیہ کے جج بن جائیں۔ جہاں تک اقبال کا تعلق ہے تو ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ انہوں نے کبھی کسی خطاب کے لئے از خود کوئی کوشش نہیں کی۔
ظاہر ہے کہ اقبال کی اتنی زبردست حکومتی اور عوامی پذیرائی پر جسٹس سر شادی لال تلملاتے رہے ہوں گے اور خود سے اقبال کی بے رُخی ان کے دل پر نقش ملال بنی ہوئی ہو گی۔ یہی وہ پس منظر ہے کہ جب 1925ءمیں لاہور ہائی کورٹ میں ایک خالی اسامی کے لئے اقبال کی بطور جج تعیناتی کی تحریک ہوئی تو چیف جسٹس سر شادی لال نے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے یہ طنزیہ فقرہ کہا:
”ہم اقبال کو شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں قانون دان کی حیثیت سے نہیں۔“
جسٹس شادی لال کا یہ کہنا کہ وہ اقبال نام کے کسی وکیل کو نہیںجانتے قانونی کتب میں ہائی کورٹ کے شائع شدہ فیصلہ جات کے ریکارڈ سے بھی جھوٹ ثابت ہوتا ہے۔ عدالت عالیہ کے شائع شدہ فیصلہ جات سے ظاہر ہوتاہے کہ شادی لال بطور مخالف وکیل بھی اقبال کے ساتھ ہائی کورٹ کے مقدمات میں پیش ہوئے اور پھر شادی لال کے جج بن جانے کے بعد پندرہ ایسے مقدمات کی تفصیل بھی ملتی ہے جن میں بیرسٹر سر محمد اقبال نے جسٹس شادی لال کی عدالت میں پیش ہو کر مقدمات کی پیروی کی۔ حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جسٹس سر شادی لال نے اقبال کی قانونی حیثیت سے یکسر نا آشنائی کی بات بدنیتی، حسد اور ذاتی ناپسندیدگی کی بنا پر کی تھی کیونکہ بیرسٹر محمد شفیع کے مقابلے میں اقبال سے سر شادی لال کی ہمنوائی سے انکار کیا تھا۔ ایک طرف تو بحیثیت چیف جسٹس وہ لاہور بار کے ممتاز رکن بیرسٹر اقبال کو بُلا کر خود انہیں ”خان صاحب“ کے خطاب کی پیشکش کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ ان کی قانونی شناخت تک سے انکاری دکھائی دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک اور واقعہ کا تذکرہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا۔ اس واقعے نے بھی سر شادی لال کے دل پر ضرور ایک انمٹ زخم لگایا ہو گا۔ یہ واقعہ اکتوبر 1933ءکا ہے جب چیف کورٹ لاہور کو ہائی کورٹ پنجاب میں تبدیل کیا گیا۔ وائسرائے ہند نئے ہائی کورٹ پنجاب کا افتتاح کرنے کے لئے بطور خاص لاہور آئے۔ اس موقع پر چیف جسٹس سر شادی لال نے استقبالیہ تقریر کی۔ وائسرائے ہند نے جوابی تقریر میں دیگر باتوں کے علاوہ بیرسٹر اقبال کے بارے میں بھی تعریفی کلمات کہے۔ بیرسٹر اقبال کی تعریف پر سب حاضرین حیرت زدہ رہ گئے۔ چونکہ ایسے موقع پر وائسرائے ہند جیسی شخصیت سے ایسی تعریف کی توقع نہ تھی۔ اقبال نے مہاراجہ سرکشن پرشاد کے نام تحریر کردہ اپنے خط مورخہ 24 اکتوبر 1933 کو خود اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ مہاراجہ کشن پرشاد ریاست حیدر آباد میں وزارت عظمیٰ کے عہدہ جلیلہ پر فائز رہے۔ مہاراجہ کشن پرشاد اپنی تحریروں میں علامہ اقبال کو ہمیشہ بیرسٹر محمد اقبال لکھا اور بولا کرتے تھے۔ مہاراجہ کشن پرشادنے علامہ اقبال کی قانون پر گرفت دیکھتے ہوئے ہی انہیں ریاست کی ہائی کورٹ میں جج لگانے کی کوشش کی تھی۔(ہمارے کالم نگار روح الامین نے 9 نومبر کے کالم میں تصحیح کرائی ہے کہ علامہ اقبال کی پہلی اہلیہ کا نام کریم بی بی ہے۔ اسی نام کا کتبہ گجرات میں ان کی قبر پر نصب ہے۔)

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...