عمران خان کا یوٹرن

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے رحیم یار خان میں جلسے کے موقع پر نیا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ہے جس میں انہوں نے سب سے زیادہ بڑی بات یہ کہی ہے کہ تحقیقات کے دوران نواز شریف وزیراعظم رہ سکتے ہیں گویا انہوں نے سب سے پہلے استعفیٰ کی شرط واپس لے لی۔عمران خان نے وزیراعظم نواز شریف سے ہر قیمت پر استعفیٰ لینے کے مطالبے سے دستبرداری کے بعد جو نیا مطالبہ پیش کیا ہے کم و بیش یہی پیشکش قبل ازیں حکومت کی جانب سے کی گئی تھی۔ جسے تحریک انصاف کے چیئرمین نے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ عدالتوں کے بارے ان کا جو موقف تھا اسے یہاں دہرایا نہیں جاسکتا۔ بہرحال اب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے حکومت کو ازخود تجویز دی ہے کہ سپریم کورٹ کے تحت ایک کمیشن بنایا جائے جس میں ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کو بھی شامل کیا جائے‘ کمیشن چار سے چھ ہفتے تک عام انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کرے تب تک نواز شریف وزیراعظم رہیں ہم بھی اپنا دھرنا جاری رکھیں گے۔ ہماری تجویز قبول نہ کی گئی تو 30 نومبر کے بعد حکومت کو بہت نقصان ہوگا۔ وطن عزیز میں یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ عمران خان کے بہت سے مطالبات اور ان کی باتوں کا صائب ہونا اور اس سے اتفاق کے باوجود مشکل امر یہ ہے کہ وہ ا پنے بنیادی مطالبے جسے وہ منوانے کیلئے تقریباً تین ماہ سے سڑک پر ہیں اس حوالے سے ان کا مطالبہ یا مطالبات حقیقت پسند انہ نہیں۔ قبل ازیں وہ وزیراعظم سے سیدھا سیدھا استعفیٰ لینا چاہتے تھے مگر اس کا جواز اور طریقہ کار دونوں کی منطق سے اتفاق مکمل نہ ہوا جس کی بنا پر ان کو بالآخر اپنے مطالبے سے دستبردار ہو کر یوٹرن لینے کا الزام مول لینا پڑا۔ عمران خان کے موقف میں تبدیلی خواہ حالات کی وجہ سے ہو یا انکو اپنے مطالبے کے نامعقولیت کا تین ماہ بعد احساس ہوا ہو۔ بہرحال یہ ایک مثبت سوچ ہے کہ جس مقصد کا حصول ممکن نظر نہ آئے اس کی جگہ اپنی ترجیح میں کسی اور موقف کو جگہ دی جائے مگر چیئرمین تحریک انصاف کے اس دوسرے مطالبے کو یکسر غیر حقیقت پسندانہ قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ ان کامطالبہ معقول اور قابل قبول ہے۔
عمران خان کے اسلام آباد میں دھرنے کو تین ماہ مکمل ہوگئے ہیں اس طویل عرصے میں انہوںنے کیا کھویا یا پایا؟ گذشتہ عام انتخابات سے قبل ان سے اپنے حامی نوجوانوں کے ذریعے ملک میں تبدیلی کی جو امید کی جا رہی تھی اس سے لوگ اب بری طرح مایوس ہوچکے ہیں۔ وہ خود تو سیاسی طور پر نابالغ ہیں لیکن انہیں استعمال کرنیوالے شیخ رشید اور چوہدری برادران نے انکی ساکھ کو مٹی میں ملا کر ان کا رہا سہا وقار بھی کھو دیا ہے۔ عمران خان کے رحیم یار خان کے جلسے میں شرکاء کی بہت کم تعداد دیکھ کر انہیں یقیناً ندامت اور پشیمانی ہوئی ہوگی کہ انہیں تالاب میں دھکا دینے والے نہ صرف غائب ہو گئے ہیں‘ بلکہ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کیلئے دیگر جماعتوں کی تائید کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا نام پیش کردیا ہے جبکہ عمران خان کی ہٹ دھرمی اس مسئلے پر اب تک باقی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ریٹائر جسٹس تصدق حسین جیلانی کا احترام کرتا ہوں لیکن ان پر مجھے اعتماد نہیں ہے۔ اہل وطن کو یاد ہے کہ عمران خان نے ایک مرتبہ حتمی طور پر اعلان کیا تھا کہ بس اب امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے اس وقت کسی نے نابالغ سیاسی بچہ سمجھ کر ان کے کان میں پھونک دیا تھا کہ فوج مداخلت کرکے یہ کام کر دیگی۔ اسکے برعکس عسکری قیادت نے آئین و قانون کی پاسداری کرتے ہوئے۔ سیاسی معاملات سیاستدانوں کو خود حل کرنے کا مشورہ دیا تو عمران خان نے فوج سے مایوس ہو کر چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی سے توقع وابستہ کرلی کہ وہ از خود نوٹس لیکر شریف برادران کی حکومت کو چلتا کردینگے اور پھر عمران خان کے وزیراعظم بننے کے امکانات روشن ہو جائینگے۔ سپریم کورٹ سے مایوس ہونے کے بعد نواز حکومت سے ان کی نفرت اور خفگی میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا اور اب وہ اپنا ظاہری حسن بھی کھوتے جا رہے ہیں۔ ان کی آخری شکست یہ ہے کہ اب نواز شریف کے مستعفی ہونے کی شرط بھی واپس لے چکے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ تیس نومبر سے قبل سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے جو گذشتہ انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات کراکے رپورٹ پیش کرے۔ عمران خان اس کمیشن میں آئی ایس آئی اور ایم آئی (ملٹری انٹیلی جنس) کے افسران کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں۔ آئین و قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور عسکری قیادت بھی اس کی اجازت نہیں دے گی‘ کیونکہ وہ فوج کو سیاست سے علیحدہ رکھنے کے عزم پر قائم ہے۔ کمیشن کی رپورٹ آنے تک عمران خان نے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت اور اپنا دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل وہ اور طاہرالقادری یہی راگ الاپتے رہے کہ نواز شریف کے برسر اقتدار رہتے ہوئے کوئی کمیشن آزادی سے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات نہیں کرسکتا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ اگر نوازشریف پر دھاندلی کے الزامات ثابت ہو جائیں تو انہیں جانا پڑے گا۔ اپنے دھرنے کے بارے میں ان کا نیا بیان حیرت انگیز ہے کہ یہ تیس نومبر کے بعد یہ پر امن نہیں رہے گا۔ عمران خان اب تک اپنی ساکھ اور عوامی حمایت کھو چکے ہیں۔ ان کی سول نافرمانی تحریک کے جواب میں لوگوں نے حکومت کو پہلے سے زیادہ ٹیکس دینے اور بجلی‘ گیس ‘ فون وغیرہ کے بل جمع کرائے ۔ اس کے بعد وہ اپنی بچی کھچی عزت بچانے کیلئے عرش سے فرش پر آجائیں تو یہ خود ان کے حق میں بہتر ہوگا۔ اہل وطن کا یہی کہنا ہے کہ عمران خان اب بھی نہ سمجھیں تو انہیں خدا ہی سمجھائے گا۔

ای پیپر دی نیشن