چین کی خارجہ پالیسی نئی قیادت کے دور میں بھی پرانی اور خوب سوچی سمجھی سٹرٹیجک وژن کی روشنی میں جاری رہے گی۔ چین کے سائنٹفک نقطہ¿ نظر اور وژن کی مداح ہونے کے ناطے مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے 14 نومبر 2012ءکو اپنی اٹھارویں قومی کانگریس کے موقع پر اپنی پرانی خارجہ پالیسی کے تسلسل کو جاری رکھنے کے عزم کا اعلان کیا ہے۔ یہ تھیوری جہاں مارکسزم، لینن ازم، ماﺅ، زی ڈونگ کی سوچ کی آئینہ دار ہو گی، وہاںاس میں نئی قیادت کی بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق نئی سوچ بھی شامل ہو گی۔ نئی ابھرتی ہوئی طاقتوں میں چین واحد قوت ہے جس کا نقطہ¿ نظر عالمی معاملات کے حوالے سے بڑا واضح اور ایک تسلسل کا حامل ہے جس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ایکٹرز کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ چین کی اصطلاح میں آج کی دنیا بیک وقت یک قطبی اور کثیر قطبی ہے۔ اسے یک قطبی کی طرف ایک عارضی قدم بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ چین کی خارجہ پالیسی میں یہ مداخلت اور ثالثی ہم سب کےلئے مبنی بر حقیقت ہو گی۔ اس سے پہ کانسپٹ ابھرتا ہے کہ عام رجحان کی پیروی سے چین کو طاقت کے اظہار میں نمایاں مدد ملے گی۔ طاقت کے اس نقطہ¿ نظر کی بنیاد پر ترتیب دی گئی یہ خارجہ پالیسی چین کےلئے منفرد اہمیت کی حامل ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ چین کی نئی قیادت تمام معاملات کو اچھی طرح چھان پھٹک کر اسکی روشنی میں آگے بڑھے گی۔
اس موقع پر صدر ہُو کی پالیسی کا تذکرہ بے محل نہ ہو گا جو انہوں نے 2009ءمیں دی تھی جس کے اہم اور نمایاں نکات ٹھوس تبدیلی، خوش آہنگ دنیا اور مشترکہ ترقی ذمہ داریوں کی شراکت داری اور عملی شمولیت تھے۔ آگے بڑھنے کےلئے چین کی نئی قیادت کیلئے عمومی سمت بنیادی طور پر یہی ہو گی تاہم موجودہ عالمی ترجیحات اور صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے معاشی میدان میں چین کو اپنے شایان شان اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔ تاہم جس بات کو احتیاط سے دیکھنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ چین کا رویہ اپنے اسٹیک ہولڈر کے حوالے سے کتنی لچک کا حامل ہو گا۔ چین کی خارجہ پالیسی کی منفرد نیچر تعلقات کے گرد گھومتی ہے جو مستقل نوعیت کے حامل قرار پاتے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کو اس بات پر فخر ہے کہ ہمارے چین سے تعلقات ہمالیہ سے بھی اونچے اور سمندر سے بھی گہرے ہیں۔ یہ تصور صرف پاکستان تک محدود نہیں کہ چین کے پالیسی سازوں کے نزدیک طاقت اور شناخت دونوں کے حوالے سے چین کے تمام دوطرفہ تعلقات والوں کے ساتھ دوستی کا ایک ہی معیار ہے۔ چین نے ترقیاتی کاموں میں ترقی پذیر دنیا میں اپنی شراکت کے ماڈل کو حیرت انگیز حد تک فائدہ مند بنایا ہے جس کا دوسری مغربی طاقتیں اپنی امداد اور تیاری کے حوالے سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ چین کا انفراسٹرکچر بنانے اور ترقی پذیر دنیا کےلئے مشترکہ طور پر قدرتی وسائل کی تلاش پر زور دینا ہی اس کی کامیابی اور مستقل بنیادوں پر تعلقات استوار کرنے میں کامیابی کا بنیادی راز ہے۔ میں ذاتی طور پر پاکستان کے دور افتادہ مقامات پر ان کے 2412 ترقیاتی کاموں میں وابستگی کی گواہ ہوں۔ مغربی ملکوں کے برعکس یہ کسی بھی ملک کے مقامی جمہوری معاملات میں مداخلت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا، اس طرح یہ اپنے معاملات کے حوالے سے بھی توقع رکھتا ہے کہ اس کی مقامی پالیسیوں میں مداخلت اور چھیڑ چھاڑ نہیں ہو گی۔ اور وہ اپنے علاقائی مفادت کا سختی سے تحفظ کرنے پر یقین رکھتا ہے۔
اسکی ایک حالیہ مثال جاپان کے ایوان بالا کی طرف سے دلائی لاما کے حق میں آنےوالی قرارداد پر چین کے احتجاج کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ چین کے ایک ذمہ دار لیڈر کے طور پر اس کا کردار شام اور ایران کے حالیہ بحران کے موقع پر بھی سامنے آیا ہے۔ شام کے لئے یہ جنگ بندی، تشدد کا خاتمہ اور سیاست کی بحالی کے لئے 14 نکاتی تجاویز ہیں جن کا خیرمقدم کیا جا رہا اور تحسین کی جاتی ہے کہ یہ عملاً قابل عمل ہیں جبکہ ایران کے حوالے سے مغرب کے جارحانہ طرز عمل کی روشنی میں بھی ان کو اہم گردانا جاتا ہے۔ اس کے تمام سٹیک ہولڈرز کو باہم اکٹھے کرنے کی بھرپور صلاحیت کا حامل ہونے کی حیثیت کے پیش نظر پاکستان پر عیاں ہے کہ ایران کی تنہائی کا تاثر بڑی حد تک کم ہو گیا ہے۔ اسی طرح پاکستان اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے چین کا نقطہ¿ نظر بھی کم اہمیت کا حامل نہیں۔ حالیہ دنوں میں اس نے اس مسئلے کے حل کے لئے اپنی ٹھوس مدد اور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے جو خوش آئند ہے۔ ایٹمی اسلحے کی دوڑ ختم کرنے کے حوالے سے بھی چین کا موقف خاصا مضبوط اور جداگانہ ہے۔ اس کا موقف ہے کہ یہ عالمی امن اور استحکام برقرار رکھنے کے اصولوں پر مبنی ہونا چاہئے اور سب کےلئے تحفظ ہونا چاہئے۔ اس کے دوررس اثرات ہوں گے۔
چین کے امریکہ کے ساتھ دوطرفہ سٹرٹیجک تعلقات ترقی پذیر ملکوں کی نسبت خاصے نازک، پیچیدہ اور مشکلات کا شکار ہیں۔ پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے معاملات اس کی سکیورٹی اور معاشی تحفظات کی روشنی میں احتیاط سے درست کرنا ہوں گے۔ چین نے اپنے شہریوں پر حملوں کے واقعات پر خاصے صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے جو ناقابل یقین ہے۔ پاکستانی سفارت کار کو مزید پیچیدگیاں پیدا ہونے سے قبل سکیورٹی تحفظات کے حوالے سے چین کے تحفظات اور خدشات دور کرنا ضروری ہیں۔ 2016ءتک اختتام پذیر ہونے والے دوسرے پنج سالہ ترقیاتی منصوبے میں مشترکہ اکنامک کمشن کی خدمات قابل تحسین ہیں جس میں چین ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے لیکن اس میں کامیابی تبھی ممکن ہے جب خود ملک کے اندر بھی معاشی استحکام موجود ہو۔ اور زوال پذیر معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کے لئے مشنری جذبے اور لگن سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کرپشن سے پاک انتظامیہ اور حکومت اپنی ترجیحات متعین کرنے کے بعد اپنا قبلہ درست کر کے چین کے ساتھ اقتصادی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ثمر آور بنا سکتی ہے.... اس سب کو ایک وسیع تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔
چین کی نئی نوجوان قیادت کے اہم معاملات میں سائنٹیفک نقطہ نظر اور سوچ کو پاک چین کے دوطرفہ تعلقات میں لازماً نظر آنا چاہئے۔ جب وژن اور مشن ایک ہو گا تو ان کی کوششوں میں ہم آہنگی بھی ہو گی۔ اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں کہ تمام کوششوں کا محور عوام کی اکثریت کو ریلیف اور ان کی سہولت ہونی چاہئے۔ روزگار کیلئے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم ہوں۔ بیروزگاری کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحولیات کا تحفظ ہو۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو‘ تعلیم اور ثقافت میں ترقی ہو اور آنے والی نئی نسل جسمانی اور روحانی آسودگی سے دوچار ہو۔ ہمیں احساس ہے کہ اس طرح کی خوش آئند ترقی اس خطے کی ضرورت ہے جس کو پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی اور سماجی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں سے عملی صورت دی جا سکتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن شروع دن سے پاک چین تعلقات بڑھانے کی حامی رہی ہے اور چین کے عظیم لیڈر ڈینگ اگیا¶پنگ کے بقول سمجھتی ہے کہ جب تک آپ کو اپنی کامیابی کا مکمل یقین نہ ہو آپ نہ کوئی صحیح پالیسی بنا سکتے ہیں اور نہ فیصلہ کر سکتے ہیں۔