موجودہ دور میں صحافت کی گرتی ہوئی اقدار

ایک زمانہ ہوا کرتا تھا کہ صحافت کو مشن سمجھ کر عوام اور حکمرانوں کیلئے مثبت پہلوﺅں کو اجاگر کیا جاتا تھا جس کے ثمرات بہت دور تک جاتے معاشرے کے اندر ہر نمائندہ فرد اپنی ایک حیثیت رکھتا ہے اور پھر صحافت کی تو شان ہی نرالی ہے کہ کبھی صحافیوں کے ایک کالم یا فیچر پر حکمرانوں کے ایوانوں میں ہلچل پیدا ہو جاتی تھی لیکن اب ایسا ممکن نہیں رہا وہ جو مثال ہے کہ جو چیز کم ہوتی ہے اس کی بڑی قدر ہوتی ہے اور جو چیز زیادہ ہو جاتی ہے وہ عام ہو جاتی ہے اور جب کوئی چیز عام ہو گئی تو اس کی قدر کھو گئی۔ کچھ اس قسم کی صورتحال آج ہی اسی صحافت کو بھی درپیش ہے کہ رکشہ چلانے والے بھی اپنے آپ کو صحافی ظاہر کرکے ٹریفک پولیس کو جھاڑتے نظر آتے ہیں۔ جن کو دیکھو اس نے کسی نہ کسی اخبار کا کارڈ یا پھر کسی نیوز چینل کا مونوگرام اٹھا رکھا ہے۔ آپ جس محکمہ میں جائیں کرپشن کی داستانیں ملیں گی۔ پولیس سے لیکر محکمہ ریونیو اور واپڈا میں تو کرپشن کی داستانیں روزمرہ کا معمول بن چکی ہیں اور کرپشن ہی کی وجہ سے پی آئی اے اور ریلوے تباہ ہو چکے ہیں۔ محکمہ مال کے پٹواریوں کے پاس اس وقت پندرہ لاکھ سے زیادہ مالیت کی گاڑی ضرور ہوتی ہے۔ اس طرح پولیس کے اے ایس آئی اور واپڈا کے میٹر ریڈر بھی کسی سے آن میں کم نہیں ہیں۔ اب اگر ان حالات میں آج سے بیس سال پہلے والی صحافت ہوتی تو یقیناً ایسی کرپشن کا بازار گرم نہ ہوتا بلکہ الیکٹرونک میڈیا نے کرپشن کرنے والوں کی داستانوں کو عام کرکے کرپٹ لوگوں کو مزید ”ڈھیٹ“ بنا دیا ہے۔ پہلے جو صحافت اور پرنٹ میڈیا کا ایسے کرپٹ عناصر پر خوف ہوتا تھا وہ اب بار بار کی کرپشن کی داستانیں فلموں کی صورت میں چلنے سے ختم ہو چکا ہے۔ صحافت اب جس تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہے اس کا نتیجہ آئندہ چند سالوں تک آ جائے گا کہ جھوٹی خبروں کا بار بار چلایا جانا اور کسی کی پگڑی کو بار بار اچھالے جانے سے معاشرے کو آخر کس قسم کا درس دیا جا رہا ہے۔ یقیناً ہماری صحافت میں بڑے نام پیدا ہو چکے ہیں جن پر آج بھی زمانہ ناز کرتا ہے جن میں مولانا ظفر علی خان، حمید نظامی، مولانا غلام رسول مہر، آغا شورش کاشمیری، مولانا عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت جیسے نابغہ روزگار لوگ شامل تھے اور آج کے دور میں اس قافلے کے سالار جناب مجید انہی لوگوں کے نقش قدم پر چل کر اپنے دم صحافت کے نام کو زندہ کئے ہوئے ہیں اور آج کے اس پرآشوب دور میں حضور اقدسﷺ کے فرمان پر عمل پیرا ہونا اپنے اوپر لازم کیا ہوا ہے کہ بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بیان کرنا ہے۔ جناب مجید نظامی کا یہ سلسلہ ایوب خان کے دور سے لیکر جنرل پرویز مشرف اور اب صدر آصف علی زرداری کے دور تک جاری و ساری ہے۔ آج کے اس دور میں جہاں تک صحافت میں آنے کیلئے نہ تو کسی تعلیم کی حد اور نہ ہی کسی اخلاق کی۔ جس کا جی چاہے اس مے خانہ میں داخل ہو کر جام پی سکتا ہے اور ایسے ہی جاہل لوگوں نے آج صحافت کے عظیم مشن کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے اور افسوس نہ تو کسی حکومت نے آج تک صحافیوں کی تعلیم اور اخلاق کے بارہ میں توجہ دی اور نہ ہی کسی اخبار کے ایڈیٹر کو اس بارے میں کچھ نظر آیا۔ کم از کم M.A تک یہ شرط لازمی ہو اور پھر کوئی شخص صحافت کے ساتھ وابستہ ہو۔ خدارا صحافت کی اس گرتی ہوئی اقدار کو روکا جائے اور اچھے اور پڑھے لکھے لوگوں کو صحافت کے ساتھ وابستہ کیا جائے تاکہ معاشرے میں صحافت کا مقام دوبارہ بلند ہو سکے اور صحافیوں کے وقار میں مزید اضافہ ہو سکے۔

ای پیپر دی نیشن