پہلا خطاب اور ضمنی انتخاب

 میاں نوازشریف نے سرپر اقتدار کا تاج سجانے کے ڈیڑھ ماہ بعد تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ” مسائل اتنے گھمبیر ہیں کہ سمجھتے سمجھتے یہ دن آگیا۔ کہنے کو کچھ ہوگا تو پھر قوم سے خطاب کرونگا، پہلے تمام ایشوزکو سمجھناچاہتا ہوں“۔ دو تین روز قبل قوم سے خطاب کا اعلان ہوا تو بہت سے لوگوں نے سوچا کہ نواز شریف کے پاس اب قوم سے کہنے کیلئے بہت کچھ ہوگا۔ بڑی خوشخبریاں، عظیم منصوبے اور بادِ صبا کے جھونکے ہونگے۔ تمام ایشوز کو بھی سمجھ لیا ہوگا لیکن تقریر پرانی بوتل، پرانا لیبل اور باسی مشروب ثابت ہوئی۔ نواز شریف کا پرانے سپیچ رائٹر تعلیم سے ماورا بازی گر تھا تو نئے تقریر نویس الفاظ کے جادو گر ہیں ۔ لیکن الفاظ کا جادو سر چڑھ کر نہ بول سکا ۔ میاں صاحب پیشروﺅں کی پالیسیوں و کارکردگی کا ماتم اور اپنی اہلیت کو چوراہے میں بے لباس کرتے نظر آئے۔ اس جملے سے اہلیت، صلاحیت، قابلیت، وژن اور سیاسی بلوغت ساتویں آسمان پر نظر آئی کہ ”معاملات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو حالات میرے اندازوں سے کہیں زیادہ خراب تھے “ لوگ تو یہ سوچ رہے تھے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے مسلم لیگ(ن) نے مسائل کا جائزہ لیا اور ان پرقابو پانے کی حکمت عملی طے ہوگی لیکن نظر آیا کہ وہ اتنے ہی سادہ لوح ہیں جتنا ان کو سمجھاجاتا ہے ۔مسائل اور مشکلات پر کڑھنا اور ان سے نجات کیلئے عزم الگ اور اہلیت و قابلیت الگ چیز ہے۔ موخر الذکر سے تہی دامنی یہ کہہ کر واضح کردی” حالات اندازوں سے کہیں زیادہ خراب ہیں“۔
 یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
 وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں، جس کی آرزو لے کر
 چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
 فلک کے دشت تاروں میں آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
کہیں تو جاکے رُکے گا سفینہ¿ غم دل
 جب میاں صاحب کے پاس اب بھی کہنے کو کچھ نہیں تھا اور جس کی امید تھی انہوں نے ایسا کچھ کہا بھی نہیں تو پھر قوم سے خطاب کا تکلف کیوں؟ باخبر حلقے کہتے ہیں ضمنی انتخابات میں ووٹر اور سپورٹر کا حوصلہ بڑھانے کیلئے۔۔۔نوجوان سے انتخابات میں کئے وعدے ایفا کرنے کی یقین دہانی اور بے گھروں کو سر کی چھت مہیا کرنے کے وعدے۔
۔پیپلزپارٹی کی رہنما ساجدہ میر نے ن لیگ کے ارادے بھانپ کر الیکشن کمیشن سے خطاب روکنے کی درخواست کی۔ عمران کی پارٹی نے ایسا کیا ہوتا تو الیکشن کمیشن کیلئے اس کا مطالبہ ردّ کرنا آسان نہ ہوتا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت عوامی توقعات پر کہاں تک پورا اتری اس کا اندازہ ضمنی الیکشن میں ہوجائیگا۔ مقبولیت کا اندازہ عام انتخابات کے مقابلے میں مارجن سے ہوگا۔ ن لیگ سہمی ہوئی ہے اسکے اندر سے پی ٹی آئی کی عوام میں پذیرائی کا خوف جاگزیں ہے ۔بلدیاتی الیکشن اسی لئے جنرل ضیاءکے عام انتخابات کی طرز پر غیر جماعتی کروانے کیلئے قانون سازی کی جارہی ہے تاکہ جیتنے والوں کو آسانی سے ہمنوا بنایاجاسکے۔ عجب اتفاق ہے بلدیاتی الیکشن 17اگست کو غیر جماعتی کرانے کا اعلان کیا گیا۔ جب غیر جماعتی الیکشن کے بانی جنرل محمد ضیاءالحق کی برسی منائی جارہی تھی۔ لگتا ہے رانا ثناءاللہ کے اندر ضیاءکی روح حلول کر گئی۔ پی ٹی آئی نے پنجاب میں غیر جماعتی الیکشن کی مخالفت کرتے ہوئے خیبر پی کے میں جماعی بنیادوںپر الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے ۔وہ ضمنی انتخاب کی تیاری بھی کر رہی ہے لیکن اس کا پارٹی کے سیاسی وژن کی مقدار اتنی ہی ہے جتنی تعداد اس کے پاس سیاسی دانشوروں کی ۔ انقلاب کے دعوے توسب کرتے ہیں لیکن انقلاب کے شعلے لیڈروں میں کم کم ہی پائے جاتے ہیں۔ قیوم نظامی صاحب سے ملاقات ہوئی وہ پرانے جیالے اور آج کل پیپلز پارٹی سے لا تعلق ہیں۔ وہ بھٹو کے ساتھی رہے ہیں ان کے اندر اب بھی انقلاب کے شرارے موجود ہیں ان کی نظرمیں تحریک انصاف کے پاس سکندر ڈرامے سے فائدہ اٹھا کر ضمنی الیکشن میں کامیابی کا یقینی موقع تھا لیکن پی ٹی آئی کے انقلابی شاید مون سون میں ہنی مون منانے اور برسات کی نسبت سے پوڑے ، پکوڑے بنانے اورکھانے میں مصروف رہے۔ مونس الٰہی کی چھوڑی ہوئی سیٹ پر تحریک انصاف کے مقابلے میں ق اور ن لیگ متحد ہیں۔ خیبر پی کے میں اے این پی ،جے یو آئی اور پیپلز پارٹی پی ٹی آئی سے نبرد آزما ہے۔ گویا تمام پارٹیوں نے عمران کو بڑا سیاسی پہلوان مان لیا ہے۔ تحریک انصاف شاید اس سٹیٹس کیلئے ذہنی طورپر تیار نہیں۔ عمران خان نا ن ایشو ز میں پڑ گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے یہودی ایجنٹ کہا تو ان کو عدالت میں لے گئے۔ قبل ازیں عدالت نے توہین عدالت کیس میں طلب کیا تھا ،اس کیس میں وہ عدالت کے سامنے اکڑے اور اڑے ہوئے ہیں۔ کچھ حلقے ان کو نا ایشوز میں الجھا کر ان کی سیاسی قوت کا ڈنگ نکالناچاہتے ہیں، جس میں وہ فی الوقت کامیاب ہیں۔ اے این پی کو اور مولانا فضل الرحمن کو کیا کچھ نہیں کہاجاتا۔شریف برادران کو ایم کیو ایم نے کیا کچھ نہیں کہا اور جواب میںسنا۔ بھٹو کو کس کس نام سے پکارا گیا تھاقائداعظم کو کافرِ اعظم بھی کہا گیا لیکن ان پر لوگوں نے عدالتوں میں جاکر اپنا وقت برباد نہیں کیا۔ کپتان خان ہوش کے ناخن لیں۔ انکے کردار و عمل سے خیبر پی کے ان کیلئے سیاسی گلستان یا قبرستان بن سکتا ہے ان کا پنجاب پر بالواسطہ احسان بھی ہے کہ میٹرو چلوادی، طلبا میں لیپ ٹاپ اور سولر لیمپ تقسیم کروادئیے ۔عمران کا خوف نہ ہوتا تو ن لیگ ایسے انقلابی اقدامات نہ کرتی۔ عدالت میں عمران خان ہی نہیں مولانا بھی خجل خراب ہوں گے۔ سیاستدان پوتڑے سربازار دھوئیں گے تو پوری دنیا دیکھے گی اور بدبو بھی اٹھے گی۔ مولانا ہی سیاسی وژن کا مظاہرہ کریں عمران نے 50کروڑ ہر جانے کا دعویٰ کیا وہ ان کو عدالت سے باہر ہی پکڑا کر معاملہ رفع دفع کردیں۔ خان اتنا بھی گیا گزرا نہیں کہ نوٹوں کا تھیلا اٹھا کر چلتا بنے۔ فضل الرحمن نے ایک بار نہیں کئی بار عمران کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیا عمران نے جواب میں کہا کہ مولانا کے ہوتے ہوئے یہودیوں کو کسی ایجنٹ کی ضرورت نہیں۔ انتخابی نتائج سے اندازہ لگالیں کہ عوام نے کس کی بات پر اعتبار کیا۔

ای پیپر دی نیشن