انتخابات کیوں نہیں ہوں گے؟

مسلم لیگ ن نے نگران وزیر اعظم کے لئے چھ نام دیئے ہیں؛ عاصمہ جہانگیر‘ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد‘ شاکر اللہ جان‘ عطااللہ مینگل‘ محمود خان اچکزئی اور جسٹس (ر) اجمل میاں۔ سرسری جائزہ لیا جائے تو اسے مسلم لیگ (ن) کی غیر سنجیدگی اور معصومیت کہاجا سکتا ہے ۔ن لیگ شائد کچھ ناموروں کو خوش کرنے کے لئے طویل لسٹ بنادی ۔ عاصمہ جہانگیر کے فوج اور عدلیہ خصوصی طور پر جسٹس افتخار محمد چودھری پر برسائے گئے طعن وتشنیع کے زہر میں بجھے تیر ریکارڈ پر ہیں ۔ ان کا نام دے کرن لیگ نے بھول پن میں اپنے اصل عزائم کا اظہار کر دیا۔۔دسمبر کے آخر میں میڈیا میں یہ خبریںآچکی ہیں کہ صدر زرداری نے جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہدکو نگران وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا اور اپنے وزیر اعظم راجہ کو ہدایت کی کہ چودھری نثار سے اسی نام پراتفاق رائے حاصل کیا جائے ۔ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کا نام پاکستان میں بڑے احترام سے لیا جاتا ہے ۔انہوں نے مشرف کے ابتدائی دورمیںپی سی او پر حلف لینے سے انکار کرتے ہوئے سپریم کے جج کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا تھا۔جب ن لیگ اور پی پی پی میں بیک ڈور چینلز ، جسے عرف عام میں مک مکا کہا جاتا ہے، کے ذریعے اتفاق رائے ہو چکا ہے تو پھر چھ نام دینے کے ڈرامے کی ضرورت؟۔ 
نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد ہوں یا کوئی اور عبوری مدت کے لئے کسی سے بھی اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کی توقع عبث ہے ۔نگران حکومت کا مینڈیٹ یقینا منصفانہ الیکشن کے انعقاد میں الیکشن کمیشن سے تعاون ہے ،جس کے سربراہ فخرالدین جی ابرہیم جیسی بااصولی شخصیت ہیں۔جن کے اختیارات اٹھارہویں ترمیم کے بعد محدود ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل چیف الیکشن کمشنر کے پاس ویٹو کا اختیار تھا جو اب محض ایک ووٹ میں بدل گیا ہے ۔چار سیاسی پارٹیوں کے نامزد ممبران کی طرح چیف الیکشن کمشنر کا بھی ایک ہی ووٹ ہوگا ۔ کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سیاسی ممبران کی خواہشات کا یرغمال بن جائے گا ۔یہ ممبران مشرف سے زیادہ طاقتور نہیںہوسکتے ،وہ اپنی پوری کوشش اور مکمل پلاننگ کے باوجود بھی 2008 ءکے انتخابات کے دوران اپنی پارٹی کی جھولی میں جیت ڈالنے میں قاصر رہے تھے۔بیشک نگران سیٹ اپ کے اوپر آصف علی زرداری صدر ہونگے لیکن وہ مشرف کی طرح طاقتور ہونے کے بجائے ،فضل الٰہی چودھری اوررفیق تارڑ صاحب کی طرح بے اختیار ہوچکے ہیں۔ ناصر اسلم زاہدکو نگران وزیر اعظم بنانا ان کے اوپرکسی کاکوئی احسان نہیں، یہ ان پر ڈالی جانیوالی آئینی ذمہ داری ہوگی ۔انہیں اپنے مفادات کی پروا ہوتی تو پی سی او کے تحت حلف اٹھالیتے۔ ان کوکوئی بھی اپنے مفادات کے لئے استعمال نہیں کرسکتا۔ان کو نگران وزیر اعظم بنانے والے اور نہ ہی وہ جن کو پسِ پردہ قوت کا منبع گردانا جاتا ہے۔ ان کا کام منصفانہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت اور عبوری دور میں ملکی امور کو آئین اور قانون کے مطابق چلاناہوگا۔
جو لوگ انتخابات کے التوایا عدم انعقاد کے خدشات کا اظہار کرتے ہیں، ان کو بھی بلاجواز قرار نہیں دیا جاسکتا۔آئین میں ایک سال تک اسمبلیوں مدت میں اضافے کی گنجائش کو ملکی حالات سے مشروط کیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت ایسے حالات کے پیدا ہونے کا یقین کئے ہوئے ہے ۔ اسی لئے وہ انتخابات کا شیڈول دینے سے گریز کررہی رہے ۔ وزیر خارجہ کےلئے ایسے حالات پیدا کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔آج تک انہوں نے جو کہا کر دکھایا ،سوائے طاہرالقادری کے لانگ مارچ اور دھرنے میں خود کش حملوں کا یقین ظاہر کرنے کے بعد اس پر عمل نہ کراسکے ،شائد ان کے ہاتھ صدر آصف علی زرداری نے چودھری شجاعت کی طرف سے اپریشن کی شدید مخالفت کے بعد باندھ دیئے تھے۔اگر عبوری حکومت بنتی ہے تو کیا گارنٹی ہے کہ حالات واقعتا ایسا رخ اختیار نہیں کر لیں گے جن کے باعث انتخابات کراناممکن نہ رہے۔ آج کرپشن جس نہج پر ہے اور اس میں جس طرح ہائی پروفائل شخصیات ملوث ہیں نگران سیٹ اپ سے یقینا ان کے احتساب کے مطالبات ہو نگے ۔ ہو سکتا ہے کہ ان کو نگران کوئی اہمیت نہ دیں لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ نگران آل اِن آل نہیں ہوں گے پسِ منظر میں وہ قوتیں بھی کارفرماہوں گی جن کا آئین میں کردار نہ ہونے کا باوجود بھی ایک مسلمہ کردار ہے ۔ نگران ان کی بات ماننے پر مجبور ہوں گے اگر اصول آڑے آئے تو ان میں سے کچھ استعفیٰ دے کے چلے جائیں گے ،اس کے بعد اس قوت کا کام مزید آسان ہو جائے گا۔آپ اسے بھی ایک مفروضہ سمجھ لیںلیکن مجوزہ نگران سیٹ اپ اپنے کام سے کام رکھنے کی جتنی بھی کوشش کرے، بہت سے معاملات میں اسے نہ چاہتے ہوئے بھی ملوث ہونا پڑے گا۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بہت سے فیصلے تشنہ تعمیل ہیں،جن کی راہ میں آج کے حکمران رکاوٹ بنے رہے ۔ایک معاصر کے تجزیہ نگار کی نظر میں وہ فیصلے کچھ یوں ہیں؛
 این آئی سی ایل اسکینڈل، حج کرپشن اسکینڈل، پاکستان اسٹیل مل کیس، ریٹائرڈ افسران کو دوبارہ ملازمت پر رکھنے کا کیس، سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمات میں ایماندار تفتیشی افسران کو بار بار تبدیل کرنے کا کیس، پنجاب بینک سکینڈل کیس، لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے صدر مملکت کو دو عہدے رکھنے سے روکنے کا کیس، ڈی جی ایف آئی اے ظفر قریشی کو بحال کرنے کے احکامات کا کیس، انیتا تراب کے معاملے میں بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کرنے کا کیس، رینٹل پاور پروجیکٹ کیس، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے تقرر کا کیس، سی این جی کی قیمتوں کا کیس، اوگرا چیف توقیر صادق کی گرفتاری کا کیس جس میں سپریم کورٹ نے وزیر اعظم راجہ ، وزیرداخلہ رحمٰن ملک اور جہانگیر بدر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا ہے ۔نگران سیٹ اپ کے لئے عدالتی فیصلوں پر عمل کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ فیصلوں پر عمل ہوا توبہت کچھ ہوگا اور جو بھی ہوگا ملک وقوم کے لئے بہتر ہوگا۔
عبوری حکومت کی مدت میں کسی بھی وجہ سے اضافہ ہوتا ہے تو اس پر ہر پارٹی احتجاج کر سکتی ہے سوائے پاکستان پیپلز پارٹی کے ۔ صدر زرداری کی مدتِ صدارت اگست 2013 ءمیں پوری ہو رہی ہے ۔پارلیمنٹ کے مکمل ہونے تک وہی صدر رہیں گے۔جب تک وہ صدر رہیں گے ان کی پارٹی کو احتجاج کی کیا ضرورت ؟۔اس سال بہت کچھ بدلنے والا ہے، جنرل کیانی نومبر جبکہ جنرل خالد شمیم وائیں ان سے بھی ایک ماہ قبل ریٹائر ہونگے۔جسٹس افتخار کو دسمبر کے وسط تک منصف اعلیٰ کے منصب پر تعینات رہنا ہے۔نئی پالیمنٹ کی عدم موجودگی میں تعناتیوںکے بڑے بڑے فیصلے عبوری حکومت کو ہی کرنا ہوں گے۔
اگر انتخابا ب بروقت ہو جاتے ہیں تو پہلی بار یہ امید پیدا ہوئی کہ دیانت دار لوگوں کی اکثریت پارلیمنٹ میں پہنچ پائے گی۔غیر جانبدار چیف الیکشن کمشنر کی موجودگی میں آئین کے آرٹیکل 62 اور63 پر عمل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ فعال سپریم کورٹ کا کردار بھی اہم ہوگا۔گو گریجوایشن کی شرط ختم ہو چکی ہے لیکن ماضی میںجس نے بھی جعلی ڈگری پر الیکشن لڑاوہ آئندہ انتخابات کے لئے نااہل ٹھہرے گا ۔کچھ کو الیکشن کمیشن اور کچھ کو عدلیہ نا اہل قرار دے دیگی۔جعلی ڈگری پکڑنے کا بڑا آسان سا طریقہ ہے ۔الیکشن کمیشن کے پاس گزشتہ دو انتخابات میں حصہ لینے والوں کی ڈگریاں موجود ہیں ۔کراچی اور لاہور کے رہنے والے نے آزاد کشمیر اور اندرون سندھ سے حاصل کردہ ڈگری لگائی ہے تو اس کی سکروٹنی کر لی جائے۔ایسے بھی ہیں جو مذہب سے تو دور ہیں لیکن ڈگریاں مدرسوں لے کر الیکشن لڑتے رہے۔یہ کام اگر سیاسی جماعتیں خود کرلیں تو کاغذات کی جانچ پڑتال کے دوران سبکی سے بچ سکتی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن