جن نام نہاد دانشوروں اور صحافیوں کی مٹھی بھر تعداد کو پاکستان کا اسلامی تشخص ہضم نہیں ہوتا، وہ کبھی کبھار اس طرح کا شگوفہ بھی چھوڑ دیتے ہیں کہ پاکستان ایک مسلم ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا تھا، ایک اسلامی ریاست کے طور پر نہیں اور قائداعظم کا منشاءو منصوبہ بھی ایک مسلم ریاست کا قیام تھا۔ سیکولر ازم کے علمبردار طبقہ کی فتنہ انگیزی اور عیاری دیکھئے کہ جب انہیں پاکستان میں سیکولر ازم کی دال گلتی نظر نہیں آتی تو وہ اسلامی ریاست سے خوفزدہ ہو کر اپنے پاس سے مسلم ریاست کا نظریہ گھڑ لیتے ہیں حالانکہ جس ریاست میں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہوگی وہاں یقینا قانون سازی اور دستور سازی کرتے ہوئے دین اسلام کو پیش نظر رکھا جائے گا۔ ایک سادہ سی بات ہے کہ اگر ایک آزاد مسلم ریاست میں مسلمانوں نے اپنی اجتماعی زندگی کو اسلام کے مطابق بسر کرنے کا اہتمام نہیں کرنا اور اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں نہیں لانا تو پھر وہ مسلم ریاست کیوں کر کہلائے گی۔ کیا قائداعظم نے صرف ایک برائے نام مسلم ریاست کا ٹائٹل استعمال کرنے کیلئے پاکستان بنایا تھا؟ میرے خیال میں پاکستان کا بطور ایک اسلامی ریاست کے جتنا واضح اور صاف تصور قائداعظم کے ذہن میں موجود تھا۔، اتنا واضح تصور اس دور کے کسی بڑے سے بڑے عالم دین کے ذہن میں بھی نہیں تھا۔علامہ اقبال نے بھی بار بار اپنے خطبہ الہ آباد میں اسلامی ریاست کے الفاظ استعمال کئے تھے، مسلم ریاست کے نہیں۔ اب بانی ¿پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا بھی تصور اسلام دیکھئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ
”اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہئے کہ اس میں اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع اللہ کی ذات ہے، جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص اور اداے کی، قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کرتے ہیں، دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآن کے اصول و احکام کی حکومت ہوگی۔“اب اگر قائداعظم کے ارشاد کے مطابق پاکستان میں صدر، وزیراعظم، پارلیمنٹ اور دیگرادارے قرآن کے اصول و احکام کے پابند بنا دیئے جائیں اور افراد کی بجائے قرآن کی حکمرانی تسلیم کرلی جائے تو یہ ایک اسلامی ریاست ہوگی یا محض نمائشی مسلم ریاست۔
قائداعظم نے 1945ءمیں اپنے پیغام عید میں ایسے سخت الفاظ استعمال کئے کہ شاید ہی انہوں نے اپنی زندگی میں اس طرح کے سخت الفاظ بولے ہوں۔ یہ الفاظ انہوں نے کن لوگوں کے بارے میں استعمال کئے۔ آپ کو قائداعظم کا پیغام عید پڑھ کر خود ہی معلوم ہو جائے گا۔ پاکستان کے لئے سیکولر ریاست کے بارے بار بار الفاظ استعمال کرنے والے گمراہ طبقہ کو بھی قائداعظم کی یہ تقریر یاد رکھنی چاہئے کہ
”جاہلوں کی بات الگ ہے ورنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ایک ہمہ گیر ضابطہ ¿ حیات ہے، قرآن محض دینیات نہیں بلکہ سول اور تعزیری قوانین کی بھی بنیاد ہے۔ وہ قوانین جن سے بنی نوع انسان کے اعمال اور حقوق کی حدبندی ہوتی ہے، وہ بھی اللہ کے نہ تبدیل ہونے والے احکام سے متعین ہوتے ہیں۔“اب جو لوگ اپنا شمار جاہلوں میں نہیں کرنا چاہتے، انہیں قرآن کو ایک ہمہ گیر ضابطہ ¿ حیات تسلیم کرنا ہوگا۔ قرآن کی تعلیمات ہمارے مذہبی، سماجی، سیاسی، معاشی، فوجی، سول، عدالتی اور قانونی تمام معاملات زندگی پر محیط ہےں۔ قرآن حکیم میں سیرت رسول کے حوالے سے ایک انتہائی مختصر اور جامع حکم ہے کہ
”یقیناً تمہارے واسطے اللہ کے رسول میں زندگی کا بہترین نمونہ ہے۔“
قرآن کے اس ارشاد کی روشنی میں اب سبی دربار بلوچستان سے قائداعظم کے خطاب کا ایک مشہور اقتباس پڑھئے۔
”میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ ¿ حیات پر عمل کرنا ہے جو ہمارے قانون دینے والے عظیم پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ہمارے لئے قائم کر رکھا ہے، ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے طے کیا کرو۔“قائداعظم نے جمہوریت کا سبق اسلام اور قرآن سے لیا تھا۔ ان کے نزدیک اسلام صرف چند رسوم، روایات اور مذہبی اصولوں کا نام نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کے سیاسی، اقتصادی اور دیگر مسائل کی راہبری کے لئے اسلام ایک مکمل ضابطہ ¿ حیات تھا۔ انہوں نے اپنے ان خیالات کا اظہار متعدد بار بڑے بڑے عوامی جلسوں میں کیا، اس کے باوجود اگر کچھ لوگ پاکستان کے اسلامی تشخص کے منکر ہیں تو یہ ان کی اپنی عقل کا قصور ہے ورنہ قائداعظم کے تصورات میں تو کہیں ابہام موجود نہیں۔ قائداعظم نے فروری 1948ءمیں امریکی نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ
”پاکستان کا دستور ابھی بننا ہے اور یہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس دستور کی حقیقی شکل کیا ہوگی لیکن ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہو گا اور اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل ہوگا۔ اسلامی اصولوں کا اطلاق ہماری آج کی عملی زندگی پر بھی ویسے ہی ہوسکتا ہے جس طرح 1300 سال پہلے یہ اصول قابل عمل تھے۔ اسلام نے ہمیں انسانی مساوات، انصاف اور ہر ایک سے رواداری کا درس دیا ہے۔ ہم ان عظیم الشان روایات کے وارث اور امین ہیں اور پاکستان کے آئندہ دستور کے معمار کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔“قائداعظم کے ان فرمودات کے مطالعہ کے بعد بھی اگر کوئی مخصوص گروہ پھر بھی یہ اصرار کرتا ہے کہ قائداعظم پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے تو میں ان کی خدمت میں صرف یہی عرض کروں گاکہ جھوٹ بولتے ہوئے کچھ تو شرم محسوس کرو‘ تمہارے نظریات‘ تمہاری گمراہی تمہیں مبارک‘ لیکن یہ قوم تمہیں قائداعظم کے افکار و تعلیمات اور قیام پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنے کا تمہارا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا!