پاکستانی قوم حادثوں اور سانحوں کی اس قدر عادی ہو چکی ہے کہ اب کوئی حادثہ کوئی سانحہ اس کے روز مرہ کے معمولات پر اثر انداز ہوتا ہے ،ناہی روکاوٹ بنتا ہے۔ حکمران اور خود عوام اسے قوم کے حوصلے اور زندہ دلی کی علامت سمجھ کر مطمعئن ہو جاتے ہیں۔ایک ایک سانحے میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ مرتے ہیں ، معذور ہوتے ہیں مگر ،،،ہم زندہ قوم ہیں،،، اس لیئے یہ نہیں سوچتے کہ،،،وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔۔حادثہ ایک دم نہیں ہوتا،،،۔ بڑے سے بڑے سانحے پر بھی ایک دو دن،، ماتم کناں،،ہونے کا ڈھونگ رچانے کے بعد،، وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے،،کا ماحول بن جاتا ہے۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ حادثے اور سانحے اس قوم کے نصیب میں لکھ دیئے گئے ہیں اور انہیں تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا گیا ہے۔ فرشتہ اجل کو اجازت ہے کہ وہ اپنے پر پھیلا کر موت کی چادر ہر دم تانے کھڑا رہے،لوگ مرتے رہیں، لواحقین آہیں بھرتے رہیں اور باقی قوم اپنے معمول کے مطابق جشن مناتی رہے۔ یقین نہ آئے تو سوشل میڈیا پر عید مبارک کے پیغامات اور ٹی وی چینلز پر عید شو ز کی بھرمار دیکھ لیجئے۔ حکمران اور سیاست دان لفظوں کی جادو گری سے افسوس کا ڈرامہ رچا کر ہمدردی کی ڈگڈگی بجاتے اور حادثے کی تحقیقات کے لیئے کمیٹی بنا کر اگلے حادثے کا انتظار کرتے رہیں۔ اب تو احمد پور شرقیہ کے حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین کے لیئے اجتماعی قبروں کا تصور دے کر حکمرانوں نے لواحقین کی سہولت کا بندوبست بھی کر دیا ہے اور خادم اعلیٰ نے تحقیقاتی کمیٹی کا بھی۔یہ کمیٹی گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفیکیٹ جاری ہونے کے بارے میں تحقیقات کرے گی۔ ،،،جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے۔۔باغ تو سارا جانے ہے،،،کہ گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفیکیٹ رشوت لیئے بغیر جاری نہیں کیئے جاتے۔
احمد پور شرقیہ کے حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی ارواح خود کو ،، خوش بخت،، سمجھتی ہوں گی کہ وزیر اعظم پاکستان ان کے جل مرنے کی خبر سن کر ،، ، لندن سے لوٹ آئے ہیں دو یوم کے لیئے۔۔۔ اور جناب وزیر اعظم نے ،،، صدمے بہت اٹھائے ہیں اس قوم کے لیئے،،،۔ہمارے ہر دم تیار خادم اعلیٰ، البتہ داد کے مستحق ہیں کہ وہ ایسے مواقعوں پر فوری پہنچنے اور فوری طور پر مختلف احکامات صادر کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ خادم اعلیٰ سے بہت سی باتوں پر اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کی یہ خوبی ماننا پڑتی ہے کہ وہ دکھ کی کسی گھڑی میں پنجاب کے عوام کو تنہا نہیں چھوڑتے، اس قدر خراب اور بگڑے ہوئے نظام کے باوجود بہتری کی مقدور بھر کوشش ضرور کرتے ہیں ۔
آنے والا سال الیکشن کا سال ہے اور پاکستانی سیاست میں پنجاب ،،پاور بیس،،قرار دیا جاتا ہے۔ لہٰذا ، احمد پور شرقیہ میں حادثے کے بعد ہر کوئی دوڑا دوڑا جائے حادثہ پر پہنچا۔مگر مچھ کے آنسو بہائے، شاہ محمود قریشی اور محمد علی دُرانی نے جنوبی پنجا ب کی محرومیوں اور غربت کا رونا رویا۔ان دونون حضرات سے یہ پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ حضور آپ بھی تو مسند اقتدار پر فائز رہے ہیں۔کیا اس وقت جنوبی پنجاب میں دودھ کی نہریں بہتی تھیں؟آپ نے اپنے زمانہ اقتدار میں جنوبی پنجاب کے لیئے کون سے تیر چلائے؟ الیکشن کے دنوں میں حلقہ انتخاب میں آئے، چند تقاریر کیں، لوگوں کو سہانے خواب دکھلاے، ووٹ لیئے، کامیاب ہوئے اور خداحافظ۔
پنجاب پاور بیس ہے اور گذشتہ کئی دہایﺅں سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ ن پنجاب سے سادہ اکثریت لیتی ہے اور پھر ،، بھان متی،، کا کنبہ جوڑ کر مرکز میں حکومت بنا لیتی ہے مگر اس کا اصل فوکس پنجاب پر ہی ہوتا ہے۔ مورخ یہ ضرور لکھے گا کہ پنجاب پر رنجیت سنگھ کے بعد سب سے زیادہ اور مضبوط تسلط شریف خاندان کا رہاہے۔
احمد پور شرقیہ کے سانحے سے ایک روز پہلے جمعتہ المبارک کے دن پارہ چنار میں ہونے والے المناک سانحے خود کش دھماکے میں پچھتر افراد موقع پر اورباقی بعد میں ہلاک ہوئے ، زخمیوںکی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ تا دم تحریر ہلاک شدگان کی تعداد ایک سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ پارہ چنار بھی اسی پاک دھرتی کا حصہ ہے اوروہاں بسنے والوں پر بھی پاکستانی ہونے کا لیبل لگا ہوا ہے۔ مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ، متاثرین اور لواحقین کئی روز سے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں اور احتجاج کناں ہیں،مگر حکمرانوں اور سیاست دانوں نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ رکھا ہے۔ اور یہ سوچ جڑ پکڑتی جا رہی ہے کہ پاور بیس ہونے کی وجہ سے پنجاب ہی سب کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ یہ بڑی خطرناک سوچ پروان چڑھ رہی ہے ، جس کا فوری تدارک ضروری ہے۔ پارہ چنار دھرنا کے آرگنائزر سجاد حسین بنگش کی ایک پرایﺅیٹ ٹی وی چینل پر دکھ بھری گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ ،،،ہمارا کوئی پرسان حال نہیں۔حکمران ادھر توجہ نہیں دیتے۔ ہمارے بنگش قبیلے کے اکابرین نے بمبئی جا کر حضرت قائد اعظم کو پاکستان کی حمایت کا یقین دلایا تھا۔ جن لوگوں نے قائد اعظم اور پاکستان کی سخت مخالفت کی تھی ، وہ آج مزے میں ہیں،،،،۔ سجاد حسین بنگش کو اس بات پر زیادہ رنج تھا کہ احتجاج کرنے والوں پر سیکورٹی فورسز نے براہ راست فائرنگ کی ، اور بارہ افراد سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ دہشت گرد بھی ہمیں ماریں اور سیکورٹی فورسز بھی۔ آخر ہمارا قصور کیا ہے؟؟؟نئی نسل نے تو نہیں دیکھا، مگر میری جنریشن کے لوگوں نے پاکستان کے مشرقی بازو کے عوام کی طرف سے کیئے جانے والے ایسے ہی گلے شکوے سنے بھی ہیں اور پڑھے بھی ہیں۔جنہیں اس وقت کے ،،ذمہ داران،،نے بھی نظر انداز کئے رکھا تھا۔
پارہ چنار کے متاثرین اور لواحقین نے ،،صدائے مظلومین،، کے نام سے دھرنے اور احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ مگر صدائے مظلومین ،،صدا بصحرا،، ثابت ہو رہی ہے۔کہتے ہیں مظلوم کی صدا سے تو عرش بھی کانپ جاتا ہے تو پھر فرش کے ،، خداﺅں،، پر یہ بے اثر کیوں ہے۔؟ اسلام آباد کے ایوانوںپر سکوت کیوںطاری ہے۔ ؟کانپتے عرش کے مالک نے ،،صدائے مظلومین،، کو پذیرائی بخش دی تو ،، فرشی خداﺅں،، کا کیا بنے گا؟