حلقہ¿ یاراں میں سے کچھ کا خیال ہے کہ وزارت عظمیٰ اور وزارت اعلیٰ پنجاب کی نگران نامزدگیوں میں جناب زرداری ایک دفعہ پھر ”زورداری“ ثابت ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں ثبوت کےلئے لفاظی کے انبار بھی سامنے آئے۔ اس بات کی کسی حد تک درست مانیں یا کافی حد تک، جو ہونا تھا ہو گیا اس پر بات تو چلے گی لیکن یہاں ایک قول یاد آ گیا (غالباً یہ حضرت علی کا ہے):
”جب بھی خدا سے دعا مانگو تو مقدر مانگو عقل نہ مانگو کیونکہ میں نے بہت سے عقل والوں کو مقدر والوں کے پاس کام کرتے دیکھا ہے“۔
مجھے تو لگتا ہے کہ میاں نواز شریف نے ایک دفعہ پھر رب کعبہ سے مقدر ہی مانگ لیا ہے۔ میاں صاحب کی دعا کی قبولیت کے بعد عقل والوں کا ستارہ گردش میں دکھائی دیتا ہے اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ میاں صاحب آنے والے سیاسی منظر میں جناب زرداری کو چند دنوں کےلئے صدر کے ”کام“ پر رکھ لیں گے۔ بہرحال یہ کوئی سیاسی پیش گوئی یا پکا تجزیہ نہیں تاہم ستاروں کی گردش یہی بتاتی ہے پنجاب کے حوالے سے تو ستاروں کے علوم کی بجائے دن کی روشنی بھی بتا رہی ہے کہ میاں نواز شریف مقدر کے سکندر ہیں لیکن سندھ کے حوالے سے حالات مختلف ہیں۔ سندھ میں میاں صاحب10 جماعتوں کے اتحاد کے پیچھے پیچھے ہیں اور پنجاب میں آگے آگے۔ مگر اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ”بے شانہ“ ارباب رحیم کے ساتھ میاں برادران کی شانہ بشانہ تصویر کا مطلب کیا ہے۔ شاید نوائے وقت (27 مارچ) میں ارباب رحیم کے ساتھ میاں برادران کی تصویر ہی اس کالم کا محرک بنی۔ اگر ہم بھول نہیں رہے تو یہ وہی ارباب رحیم ہیں جو پرویزی دور میں سندھ کے”پرویز الٰہی“ لگے ہوئے تھے۔ جس طرح کبھی پرویزالٰہی ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ وردی سمیت ایک بار نہیں کئی بار پرویز مشرف بطور صدر منظور ہیں، اسی طرح ارباب غلام رحیم کی وہ سابق قبولیت اور مقبولیت“ نظر انداز کر سکتے ہیں، تو نہ جانے گجرات والوں کو قبول کرنے سے کیوں گریزاں رہے۔ مشرف کے گیت گانے اور ترانے گانے والے طارق عظیم سے لے کر مشرف کے ارشادات کو جھولا جھولانے والے وقاص اکرم کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح متعدد ایم این اے اور ایم پی اے لئے جا سکتے تھے تو پھربڑوں کی بات مان کر مقدر کے سکندروں نے مسلم لیگوں کو اکٹھا کیوں نہ کر لیا؟ہاں، بات چلی تھی مقدر والوں اور عقل والوں کی بلاشبہ اور بلامبالغہ نگران وزیراعظم اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب لانے میں عقل والوں کی عقل چلی۔ ان کا طریقہ واردات لاجواب رہا۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کا نام پی پی پی اور ”اوپر“ کی جانب سے آیا تھا، اور آخری وقتوں میں شامل ہوا۔ باقاعدہ سوچی سمجھی سکیم کے تحت آخری وقتوں میں شامل کیا گیا۔ رانا ثناءاللہ کی باڈی لینگوئج سے لگ رہا تھا کہ نجم سیٹھی نگران وزیراعلیٰ ہو جائیں گے۔ ن لیگ نے خوبصورت تاثر دینے کی ناکام کوشش کی کہ ان کی اعلیٰ قیادت نے نام منظور کیا اور اس نام میں ن لیگ کی دلچسپی موجود ہے۔ ہمیں نجم سیٹھی سے اختلاف نہیں لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ نجم سیٹھی کی لابی، اٹھان اور پرواز کیا ہے کم از کم یہ مسلم لیگ اور اصلی مسلم لیگ کے ہم نوا نہ تھے، نہ ہو سکتے ہیں۔ بہرحال مقدر والے ا ن سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے تاثر کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ وہ مذہبی و سیاسی رہنما جو کسی طور بھی نجم سیٹھی کو پسند کرتے ہیں نہ کرتے تھے وہ بھی گالیں گلنار کر کر کے مبارکبادیں پیش کر رہے ہیں .... واہ رے سیاست تیرے کتنے کام اور تیرے کتنے نام!!!
سیاسی منظر نامہ نارووال، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، راولپنڈی، گجرات، شیخوپورہ، فیصل آباد، قصور اور لاہور کے شہروں میں تو مقدر کے سکندر کےلئے بہت صاف اور شفاف فتح دکھاتا ہے۔ ان شہروں میں کہیں کوئی سونامی ہے نہ بدنامی۔ راقم کو بہت شوق تھا کہ نارووال میں بننے والے تعلیم کے تاج محل کو قریب سے دیکھے۔ قریب سے دیکھا تو واقعی این ایل سی بنانے والے اور بنوانے والے کے حسن و عشق کے ذوق کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کا نارووال سب کیمپس ہے جس کی بالائی سطح کو تاج محل کا سا حسن بخشا گیا۔ بنانے والے ٹھیکیدار کو سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے شاباش کی کنجوسی رکھنے کے باوجود دل کھول کر شاباش دی، یہی شاباش راقم کو نارووال تک جانے کےلئے مجبور کر گئی کوشش کے باوجود احسن اقبال سے ملاقات نہ ہو سکتی وہ اس دن اس بات پر پریشان تھے کہ کہیں دانیال عزیز کی ن لیگ میں شمولیت ان کی مقبولیت کا گراف نہ گرا دے، پس اس عالم میں وہ فون لینے سے بھی قاصر تھے۔ ہم نے خوردبین اور دوربین سے مریدکے سے نارووال تک کو دیکھا۔ یہ دو حلقوں پر مشتمل ہے جو رانا تنویر حسین اور احسن اقبال پر مشتمل ہے۔ مریدکے سے نارووال کا سفر ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں لیکن ان دونوں کی مہربانی سے یہ سفر اڑھائی گھنٹے کا ہے۔ سن1947ءسے تاحال اس سڑک کی ”کشیدہ کاری“ تروتازہ ہے۔ مزے مزے کی گھڑے، پٹری کی زحمت نہ ہونے کے برابر اور ماشاءاللہ ایم این اے دونوں سدا بہار اور ”پکے“ مسلم لیگی۔ احسن اقبال کا سیاسی مقابلہ اس لئے نہیں ہے کہ مقدر کے سکندروں کے دست شفقت نے انہیں بھی مقدر کا سکندر کا بنا رکھا ہے۔تعلیم کے تاج محل کو نکال کر وہاں پر جو ترقیاتی کام سابق ناظم نارووال کرنل جاوید کاہلوں نے کروائے ہیں احسن اقبال اس کا سوچ بھی نہیں سکتے لیکن وہاں نارووال میں بھی عقل مقدر والوں کی باندی ہے!
نارووال سے باہر نکل کر ایک نظر لالہ موسیٰ پر بھی سابق وزیر اطلاعات و نشریات اور پی پی پی کے متحرک لیڈر قمرالزمان کائرہ کا مقابلہ چودھری جعفر اقبال جونیئر سے ہے۔ لاہور تا اسلام آباد جی ٹی روڈ پر یہ واحد سیٹ تھی جو کائرہ صاحب پی پی پی کو دلوا سکتے تھے لیکن اس جیت پر بھی ”جی ٹی روڈ تے بریکاں لگیاں“ کیونکہ ہم جعفر اقبال کو زمانہ ایف سی کالج سے جانتے ہیں جب یہ طالب علم رہنما تھا۔ بہرحال طالب علم رہنما تو کائرہ بھی تھے۔ جہاں سابق طالب علم رہنما آمنے سامنے ہوں اس الیکشن کا حسن اور ہی ہوتا ہے۔ خواجہ آصف اور ذوالفقار کھوسہ کی تو پوری کوشش تھی کہ ٹکٹ ق لیگ سے آئے شخص کو دے دی جائے لیکن اوپر والا مقدر کے سکندروں کا دست شفقت جعفر اقبال پر چاہتا تھا گویا اس حلقہ میں بھی سیانوں پر خوش بخت ہی غالب لگتے ہیں۔
پی پی پی کے چیئرمین کے حوالے سے خبر گردش میں ہے کہ وہ بابا جانی اور پھوپھو جی سے ناراض ہو کر باہر چلے گئے ہیں۔ ممکن ہے بقول قمر زمان کائرہ یہ بات غلط ہو لیکن معتبر ذرائع یہ ضرور کہتے ہیں کہ منظور وٹو”حلقہ خصوصی“ میں یہ فرماتے پھرتے ہیں کہ میں نے پنجاب کی پگ محترمہ فریال تالپور سے ”ایویں نئیں وصولی“ گویا مرضی تو ہو گی....
دل پہ لاکھوں لفظ، کندہ کر گئی اس کی نظر
اور کہنے کو ابھی اس نے کہا کچھ بھی نہیں
سیاسی منظر نامے سے ہٹ کر ذرا حکومتی منظر نامے پر دیکھیں تو زمین سے آسمان تک ”جسٹس پارٹی“ برسراقتدار ہے۔ سابق ججوں کی جو لاٹریاں نکلی ہیں، اگر وہ اب چند دنوں میں وہ ڈلیور نہ کر پائے تو انصاف والوں پر بھی ناانصافی کے الزامات آ سکتے ہیں پھر ایک بائیں بازو کے صحافی کے ہاتھ ملک کا سب سے بڑا صوبہ لگ جانا بھی عجوبہ سے کم نہیں۔ جانے اس پر دائیں بازوں کے مولویوں اور میاں نواز شریف نے کیا سوچا ہوگا.... مگر کیا کریں سوچیں مغلوب اور مقدر غالب لگتے ہیں۔مطلع صاف و شفاف ہے، سیاست ہے کہیں نہ ”سیاہ ست“ اب کے بار۔ مقدر والوں کے بعد ”عقل والے“ ہیں تاہم عمران خان کا ”کھیل“ مزیدار جا رہا ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے گیم مقدر والے جیت جائیں گے اور کھیل عمران خان بھی چمکاتے دکھائی دیتے ہیں۔ مقدر والوں کو ایوان اور عقل والوں کو کام ملتے دکھائی دے رہے ہیں اور کھیل والوں کو مزید....!