جوں جوں انتخابات کا دن قریب آرہا ہے، توں توں غیر جانبدار سیاسی تجزیہ نگاروں اور علم سیاسیات کے ماہرین کے وہ اندازے زیادہ درست ہوتے نظر آتے ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ سال 2013ءکے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ق لیگ دونوں کا ووٹ بینک ضائع ہوتا جائے گا حتی کہ انتخابی نتائج سے ظاہر ہو جائے گا کہ یہ دونوں سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی تاریخ کی نہ صرف عبرتناک شکست سے دوچار ہوں گی بلکہ عین ممکن ہے کہ عوام الناس میں اپنا اعتماد بحال کرنے میں شاید کم ازکم پانچ سال تو ضرور لگ جائیں گے۔ دو ڈھائی سال قبل جب صدر آصف علی زرداری نے اپنی حکومت کو بچانے کی خاطر ق لیگ سے اتحاد کرکے مخلوط حکومت بنائی تو اس کا فوری نتیجہ تو یہ تھا کہ دونوں جماعتوں کا اتحاد سامنے آگیا لیکن حقیقت میں کچھ اور ہی صورت حال کی جانب قومی سیاست کا رخ تبدیل ہو گیا۔ وہ اس طرح کے پیپلز پارٹی اور ق لیگ دونوں نے باہم گٹھ جوڑ کرکے دراصل اجتماعی خود کشی کا راستہ ہموار کر لیا اور ہوا بھی یہی کہ چند ماہ قبل قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے آٹھ دس حلقوں میں جو ضمنی انتخابات کرائے گئے تھے ان میں یہ دونوں جماعتیں نہ صرف بری طرح شکست کھا گئیں بلکہ پاکستان مسلم لیگ ن کو‘ جو پہلے ہی اپنے مہذب اور عوام دوست رویہ کی وجہ سے اپنا ووٹ بینک بڑھا چکی تھیں جو فتح نصیب ہوئی اس نے ق لیگ اور پیپلز پارٹی کے احمقانہ گٹھ جوڑ کو مزید بے نقاب کر دیا۔کمزور بیساکھیوں پر کھڑی مخلوط حکومت میں شامل ان دو اہم جماعتوں کی حرکتیں تو انہیں نہ صرف عوام سے مزید دور لے گئیں بلکہ ان دونوں جماعتوں کی بعض بداعمالیاں انہیں لے ڈوبیں مثلاً ق لیگ نے سالہا سال جرنیلی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی آغوش میں پروان چڑھنے کے بعد سیاسی حرص و ہوس اور بے غیرتی کی انتہا کر ڈالی بلکہ اس پارٹی کے چوٹی کے رہنما چودھری پرویز الہی نے اقتدار کے نشے میں چور ہو کر یہاں تک اعلان کر ڈالا ”پرویز مشرف کو ہم آئینی‘ قانونی اور اخلاقی سربراہ مملکت سمجھتے ہیں اور انہیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ انہیں جرنیل کی وردی سمیت ہی دس مرتبہ صدر منتخب کرتے رہیں گے۔“ باوردی دس بار منتخب کرنے کا اعلان نہ صرف جمہوریت اور آئین و قانون کا مضحکہ اڑانے کے مترادف تھا کہ بلکہ پاکستانی عوام کو غالباً پارلیمانی جمہوریت سے متنفر کرنے کا بھی مقصد تھا۔ ایک اور شرمناک مثال خود ق لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین نے یہ کہہ کر قائم کی کہ ”ہمارے بارے میں یہ بات کہنا غلط ہے کہ پیپلز پارٹی کے قائد اور جمہوریت کے زبردست علم بردار مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے کے موقع پر جرنیلی آمر ضیاءالحق نے جس قلم سے پھانسی کی سزا کے پروانے پر دستخط کئے تھے‘ اسے ہمارے والد چودھری ظہور الٰہی نے جنرل ضیاءالحق سے بطور تحفہ حاصل کیا تھا اور وہ قلم آج بھی ہمارے خاندان کی تحویل میں موجود ہے۔“افسوسناک امر یہ ہے کہ دو عشروں تک تو ضیاءالحق کے اس قلم کا تذکرہ بڑی شان سے کیا جاتا رہا لیکن جب سزائے موت پانے والے اسی لیڈر کی قائم کردہ سیاسی پارٹی نے مخلوط حکومت بنانے کی خاطر ق لیگ کو ساتھ ملایا تو سال 2008ءکے الیکشن میں عبرتناک شکست پانے والوں نے اپنی بقاءکا راستہ اسی بات میں تلاش کر لیا کہ اب پرویز مشرف کی جگہ آصف زرداری کی آغوش میں بیٹھ کر اقتدار کے گل چھرے اڑائے جائیں۔ ادھر پیپلز پارٹی نے بھی مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت سے علیحدگی کی بعد ق لیگ ہی کو ساتھ ملا کر اپنے لئے نئی بیساکھیاں تلاش کر لیں لیکن یہ نہ سمجھا کہ پارٹی ورکروں کے قلوب و اذہان کس بری طرح متاثر ہوئے ہوں گے۔ ایک اور مضحکہ خیز حرکت کا پی پی پی کے ہاتھوں ارتکاب یہ ہوا کہ 2008ءکے انتخاب جیتنے کے بعد پیپلز پارٹی کے ایک نمائندہ اجتماع میں صدر زرداری نے آ¶ دیکھنا نہ تا¶‘ سیدھے منہ سے ق لیگ کو ”قاتل لیگ“ کا نام دے ڈالا اور ظاہر کیا کہ ورکروں کی محبوب لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں ق لیگ ہی کا ہاتھ ہے۔ دونوں پارٹیوں کی ان چند حرکات نے اپنے اپنے کارکنوں کو سخت دکھ پہنچایا اور اندر ہی اندر اشتعال کالا وا پکتا رہا تاآنکہ چند ماہ قبل کے ضمنی انتخابات میں دونوں پارٹیاں بے نقاب ہو گئیں اور ثابت ہو گیا کہ دونوں کے گٹھ جوڑ سے بجائے یہ کہ پارٹیاں مضبوط تر ہوتیں‘ الٹا اپنے اپنے ووٹ بنک کم کر بیٹھی ہیں۔ اور اب الیکشن 2013ءمیں اجتماعی خود کشی کی جانب مائل ہیں۔لیگ کے سربراہ اور جرنیلی آمر پرویز مشرف کی آمد کے پیچھے کوئی نہ کوئی خفیہ ہاتھ ضرور ہیں اور خصوصاً پرویز مشرف کی پاکستان واپسی میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کرنے میں بھی کوئی پراسرار معاملہ ضرور ہے بلکہ ظاہر تو یہی ہوتا ہے کہ چونکہ ق لیگیوں کو چند ہفتے پہلے ہی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ پیپلز پارٹی سے انتخابی اتحاد کے نتیجے میں جب اسمبلیوں کی نشستوں کی ایڈجسٹمنٹ کا مرحلہ آئے گا تو یقیناً دونوں پارٹیاں باہم دست و گریباں ہوں گی لہٰذا اسی خدشے کے پیش نظر ق لیگ چاہے کتنا ہی پرویز مشرف سے دوری کا تاثر دے اندر سے دونوں کی ہمدردیاں برقرار ہیں اور انتخابی سرگرمیوں میں خلل ڈالنے کی بھی چوری چھپے کوششیں جاری ہوں گی۔ حیرت کی بات ہے کہ چند ماہ قبل جب پرویز مشرف لندن میں اپنی رہائش گاہ پر موجود تھے تو چودھری پرویز الٰہی بظاہر علاج کی غرض سے برطانیہ چلے گئے اور اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ان سے نہ صرف گرم جوشی سے ملاقات کی جو چار گھنٹے جاری رہی بلکہ مستقبل میں ضرورت پڑنے پر باہمی گٹھ جوڑ پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ اس ملاقات کو واللہ اعلم میڈیا نے کیوں خاطر خواہ اہمیت نہ دی کیونکہ آج کے مشرف کے رویے اور ق لیگ کے خفیہ رابطوں کا اندازہ تو صاف ہو رہا ہے۔
پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے ووٹ بنک؟
Apr 01, 2013