بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور ناراض بلوچوں میں اثر و رسوخ رکھنے والے رہنما اختر مینگل نے وطن واپس آ کر الیکشن میں حصہ لینے کا جو اعلان کیا ہے وہ محب وطن پاکستانیوں کے لئے ایک اچھا شگون ہے۔ اس وقت بلوچستان میں بدامنی اور لاقانونیت کی وہی کیفیت ہیں جو1971ءکے آپریشن کے وقت تھیں۔ دھماکے، اغوا برائے تاوان، قتل و غارت، ملکی، صوبائی و لسانی تعصب، مسلح بغاوت کے ساتھ ساتھ اب فرقہ وارانہ تشدد بھی اس میں شامل ہو گیا ہے۔ 60 برس گزرنے کے باوجود بلوچستان میں خوشحالی اور ترقی کا وہ دور شروع نہیں کیا جا سکا جس کا ہر حکومت وعدہ کرتی رہی ہے۔مری، مینگل، بگٹی ان تینوں قبائل کو اگر کوئی حکومت صحیح اقدامات سے درست طور پر ہینڈل کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ بلوچستان کے بگڑے ہوئے حالات درست نہ ہوں۔ بلوچستان میں نوجوانوں کی اکثریت آج بھی ان تین ناموں کو احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور بدقسمتی سے انہی تینوں قبائل کے ناراض نوجوان اس وقت حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں۔مگسی، جمالی، رئیسانی اور زہری کے علاوہ دیگر چھوٹے چھوٹے بلوچ قبائلی رہنما شروع ہی سے پاکستان کی وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں میں شامل رہنے کی وجہ سے انتہاپسندی سے قدرے دور رہے۔اگرچہ محرومیوں کے حوالے سے ان کے نوجوانوں کی اکثریت بھی ناراض نظر آتی ہے مگر ہنوز ان کے اندر بغاوت کے وہ آثار پیدا نہیں ہوئے جو مری بگٹی اور مینگل قبائل میں نظر آ رہے ہیں۔ بلوچ نوجوانوں کی اکثریت پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے کی وجہ سے جب تعلیم حاصل کرنے کے لئے کوئٹہ جاتے ہیں تو یہاں تعلیمی اداروں میں علیحدگی یا انتہاپسند رجحانات رکھنے والے اساتذہ، سیاسی رہنما اور دانشور انہیں بآسانی شکار کر لیتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے سابقہ مشرقی پاکستان میں بنگالی طلبہ اور نوجوانوں کو پاکستان سے متنفر کیا جاتا تھا۔ بلوچ نوجوانوں کے علاوہ براہوی نوجوان بھی جنہیں ہم بلوچ ہی تصور کرتے ہیں اس ترقی یافتہ دور میں بھی اپنے صوبے اور علاقوں کی پسماندگی پر سیخ پا رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے کوئٹہ سے لے کر جیکب آباد اور قلات سے لے کر کراچی تک یہ بلوچ علاقے جو اپنی وسعت اور رقبے میں بہت بڑے اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹے چھوٹے دیہات اور شہروں پر مشتمل ہیں گذشتہ 60 برسوں سے اپنے نوابوں، میروں، سرداروں اور وڈیروں کے دورِ قدیم قبائلی رسوم و رواج کے چنگل سے نہیں نکل سکے اور ان کے رہنماﺅں نے حکومتوں میں رہتے ہوئے بھی ان علاقوں میں تعلیم، مواصلات اور صحت کی وہ سہولتیں فراہم نہیں کیں جو ان پسماندہ علاقے کے عوام اور خوشحالی و آرام لا سکے۔ ان دشوار گزار علاقوں میں بجلی، گیس، صاف پانی، ہسپتال اور سڑکوں کی عدم موجودگی کی وجہ بھی یہی سرداری نظام رہا ہے جس نے یہاں کے عوام کو بلاتاخیر ریاست کے خلاف سر اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ حالانکہ ان کی اس پسماندگی میں سب سے زیادہ ہاتھ خود ان کے نوابوں اور سرداروں کا ہے جنہوں نے حکومت میں رہتے ہوئے اور گیس و کوئلے کی رائلٹی حاصل کرنے کے باوجود ترقیاتی کام نہیں کرائے۔ اس تصویر کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ بلوچ و براہوی قوم نہایت سادہ، شریف النفس اور صابر و شاکر زندگی بسر کرنے کے عادی رہے ہیں۔ وطن، مذہب اور قوم سے محبت ان کی سرشت میں شامل ہے۔ قوم کے نام پر مرنا اور مارنا ان کے لئے اعزاز کی بات ہے۔ دشت و بیاباں اور پہاڑ ان کے مرکز ہیں۔ سخت موسم اور حالات ان کو انہی بلند و بالا پہاڑوں اور وسیع صحراﺅں کی طرح مضبوط حوصلے اور وسعت قلبی عطا کرتے ہیں۔ ان کو محبت سے جیتا جا سکتا ہے۔ طاقت سے سرنگوں نہیں کیا جا سکتا وہ اپنی دشمنیاں صدیوں تک نبھانے کے عادی ہیں۔ ان کی مائیں ان کو لوری میں بھی وطن کی حرمت، اللہ کے دین کی عظمت پر اور قبیلے کی عزت پر کٹ مرنے کا درس دیتی ہیں۔ ان باتوں کے ادراک کے باوجود اگر ہمارے حکمران اس صوبے میں طاقت کے زور پر امن کے طالب ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔ آج اگر اختر مینگل صاحب کے مطالبات اور الیکشن میں حصہ لینے پر غور کیا جائے تو ہمیں آج بلوچستان میں پھر ایک مرتبہ غوث بخش بزنجو (مرحوم) جیسے نرم خو اور گرم گفتار رہنما کی صورت نظر آنے لگی ہے جو آج بھی بلوچ قوم اور رہنماﺅں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ کاش ہمارے حکمران اور پالیسی ساز ادارے اس نازک موقع پر ایسے دوراندیش اور محب وطن رہنماﺅں جن میں طلال بگٹی اور اختر مینگل سرفہرست ہیں کو مطمئن کرکے ناراض مری و بگٹی رہنماﺅں کو بھی اعتماد میں لینے کی کوشش کریں تو اس سے بلوچستان میں پھیلی بدامنی پر احسن طریقے سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس بات کا احساس راقم الحروف جیسے ہزاروں ”سیٹلرز“ کو بخوبی ہے جو گذشتہ 60 برسوں سے بلوچستان میں آباد ہیں اور ان کی ایک نسل وہاں قبرستانوں کو آباد کر چکی ہے اور بلوچستان میں ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے وہاں سرکاری، غیر سرکاری اداروں اور دوسرے کاروبار میں شامل ہیں جنہوں نے وہاں بلوچوں اور پشتونوں میں شادی بیاہ اور رشتہ داریاں قائم کر لی ہیں۔ یہ سب ”سیٹلرز“ آج کے حالات سے بہت دل گرفتہ ہیں اور بلوچستان میں اصلاحات، تبدیلی، امن اور خوشحالی کی تمنا رکھتے ہیں تاکہ بلوچستان جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ترقی کی منزلیں طے کرتا رہے۔ مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے حکمران یہاں سے نفرت، تعصب، پسماندگی اور جہالت و غربت کا خاتمہ کریں۔ بے گناہ افراد کی ہلاکتوں اور سینکڑوں افراد کی گمشدگی کے مسئلے کو حل کریں۔ ناراض بلوچوں کے اعتماد اور دل کو جیتیں۔ زبانی نہیں عملی طور پر بلوچستان میں ترقی و خوشحالی کا دروازہ کھولیں تو سب دیکھیں گے کہ بلوچ بھی اتنے ہی محب وطن ہیں جتنا کوئی اور سندھی، پٹھان یا پنجابی محب وطن ہے اس لئے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ اختر مینگل جیسے رہنماﺅں کے ساتھ مل کر حالات کو بہتر بنائیں۔