”میٹرو بس سروس“ سے طویل فاصلہ کم وقت میں طے ہونے لگا

عنبرین فاطمہ
صوبائی الحکومت میں گزشتہ دو دہائیوں سے پبلک ٹرانسپورٹ کو بری طرح نظر انداز کر کے عوام کو نجی ٹرانسپورٹرز کے رحم و کرم پر چھوڑ نے کے نتیجے نے شہریوں کو مایوسی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ان حالات میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کا لاہور کی عوام کےلئے ”میٹروبس سروس “کا آغاز کسی تحفے سے کم نہیں ہے۔ترقی یافتہ ممالک تو پہلے ہی اس سفری سہولت سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں کسی بھی صوبے کی عوام کو اس قسم کی سفری سہولت ملنا کسی خوشخبری سے کم نہیں ہے۔”میٹروبس“ آرام دہ اور محفوظ سفر کے حوالے سے پوری دنیا میں پسند کی جاتی ہے۔دنیا میں پہلی بار بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کا آغاز 1974ءمیں برازیل میں ہوا تھا اور اس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے بعد میں یہ نظام دنیا بھر میں پھیلتا چلا گیا۔پبلک ٹرانسپورٹ کاےہ جدید نظام آج سےول (جنوبی کورےا)، احمد آباد(انڈےا)، جکارتہ (انڈونےشےا) ، بوگوٹا(کولمبےا)، استنبول(ترکی) اور لانس انجلیس (امریکہ ) جےسے گنجان آباد شہروں مےں انتہائی کامےاب نتائج کے ساتھ کار فرما ہے۔”گجو متہ سے شاہدرہ “ تک جانے والی ”میٹرو بس سروس“ لاہور کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مین لائن کا درجہ رکھتی ہے ۔اس طویل فاصلے کےلئے یہ جدید سفری سہولت جہاں مرد حضرات کےلئے سکھ کا سانس لینے کا باعث بنی ہے وہیںخواتین اورسکولوں کالجوںکی بچیاں بھی اس سفری سہولت سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔میٹروبس سروس کس طرح سے گھریلو و ورکنگ ویمنز اور طالب علم بچیوں کےلئے فائدہ مند ہے اس حوالے سے ہم نے ”میٹروبس“کا سفر کیا اور راستے میں خواتین سے بات چیت کی۔سامیعہ خان جو لاہور کالج یونیورسٹی میں بی اے کی طالبہ ہیں ان کہنا ہے کہ میٹروبس سروس ہر لحاظ سے مناسب سفری سہولت ہے۔طالب علم وقت پر اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں پہنچ جاتے ہیں اور کرایہ بھی خاصامناسب ہے۔سمیرا خان ایک ورکنگ لیڈی ہیں انہوںنے کہا کہ میں ماڈل ٹاﺅن کی رہائشی ہوں اس بس سروس کی وجہ سے مجھے طویل فاصلہ طے کرنے میں آسانی میسر آگئی ہے پہلے مجھے آنے جانے کےلئے گھر کے کسی فرد کی مدد لینی پڑتی تھی لیکن اب میں بآسانی آجا سکتی ہوں۔گھریلو خاتون آمنہ جنرل ہسپتال کی قریبی کالونی کی رہائشی ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں غریب عوام روز بروز مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے فکر معاش نے انہیں در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر رکھا ہے۔فکر معاش لیکر جب غریب آدمی گھر سے نکلتا ہے تو اسے ٹرانسپورٹ کے انتظار میں سٹاپ پر ہی اتنا وقت کھڑا ہونا پڑتا ہے جس کی وجہ سے اس کی طبیعت میں چڑچڑاپن آجاتا ہے اوپر سے کرائے اتنے زیادہ کہ غریب آدمی کی تو کمر ہی ٹوٹ جائے۔لیکن میٹروبس سروس نے ہم جیسی خواتین کےلئے آسانی پیدا کر دی ہے۔ثمن رشید (طالبہ) نے کہا کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے یہاں کی عوام کو اس قسم کی سفری سہولیت مہیا کرنا یقیناً قابل تحسین کاوش ہے۔ترقی یافتہ ممالک تو پہلے ہی اس سفری سہولت سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں ۔گجومتہ کی رہائشی ورکنگ لیڈی تبسم ناز نے کہا کہ میٹروبس سے قبل ہمیں بسوں اور ویگنوں کے انتظار میں گھنٹوں کھڑے رہنا پڑتا تھا ہر بس اور ویگن سواریوں سے بھری ملتی تھی اگر جگہ مل بھی جاتی تو پیک ہو کر کھڑا ہونا پڑتا ہے اور کرایہ بھی زیادہ تھا اس کے علاوہ اگر کسی مسافر کے ساتھ سامان ہوتا تھا تو اسے بس یا ویگن میں سامان رکھنے کےلئے الگ سیٹ کی ٹکٹ لینی پڑتی تھی اب اگر ایک میڑوبس بھری آتی ہے تو تین سے چار منٹ کے بعد دوسری اور پھر تیسری بس ”بس سٹینڈ“ پر بآسانی مل جاتی ہے۔میٹروبس کے انتظار کےلئے دھکے نہیں کھانے پڑتے بلکہ سٹاپ پر باقاعدہ بنچز پڑے ہیں جہاں بیٹھ کر بس کا انتظار آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔بی اے کی طالبہ انعم سعید نے کہا کہ میٹروبس سروس کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں طالبات اکیلے بغیر کسی ڈر خوف کے سفر کر سکتی ہیں اور یہی اس سفر کی خوبصورتی ہے لیکن خواتین کی سیٹوں کی تعداد کم ہے اگر وہ زیادہ رکھی جاتی توزیادہ آسانی ہوجاتی۔لاہور کالج کی طالبات نویرہ پرویز،آمنہ رشید،غزالہ خان نے کہا کہ اس بس سروس سے قبل ہمیں رکشہ والے پر انحصار کرنا پڑتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے ہم ایک ہی وقت میں تینوں سہیلیاں بآسانی میٹرو بس سروس سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔سرکاری آفیسر نائمہ ملک نے کہا کہشاہدرہ سے لیکر گجو متہ تک بیس روپیہ کرایہ مقر کیا گیا ہے جوکہ بے حد مناسب ہے اگر ہم یہ کہیں کہ میٹروبس غریب عوام کےلئے مناسب سفری سہولت ہے تو بے جا نہ ہوگا اس کی بلا روک ٹوک سروس سے ملازم پیشہ افراد کو وقت ضائع کئے بغیر آنے جانے کی سہولت میسر آئی ہے۔کرائے مقرر کرتے وقت عام آدمی کی جیب کو مد نظر رکھا گیا ہے۔کرائے کی ادائیگی کےلئے ہر ایک سٹیشن پر کاﺅنٹر موجود ہے اس کے علاوہ خودکار مشین کے زریعے بھی ٹوکن حاصل کیا جا سکتا ہے۔کاﺅنٹر پر 20روپے فی کس کے حساب سے ادائیگی کرنے پر وہاں موجود ملازم مطلوبہ ٹوکن مہیا کر دیتا ہے۔جو لوگ خود کار مشین کا استعمال سیکھ لیتے ہیں وہ 20سے40 یا سو روپے کی رقم مشین میں داخل کر کے خود ٹوکن وصول کر سکتے ہیں۔اسی طرح جن لوگوں نے کارڈ بنوا رکھا ہو وہ اس مشین میں ہدایات کے مطابق رقم داخل کر کے وقتاً فوقتًا اس کارڈ کو لائن میں لگے بغیر چارج کروالیتے ہیں۔تمام مسافر ٹوکن کے زریعے بس ٹرمینل میں داخل ہو سکتے ہیں جہاں ایسی سیکنر مشین نصب کی گئی ہے کہ اس میں مشین کے بالائی حصے میں اس ٹوکن کو سامنے لانے سے داخلے کا راستہ کھل جاتا ہے۔اس ٹوکن کو سفر مکمل ہونے تک ساتھ رکھنا ضروری ہے ۔مسافر جس سٹیشن سے باہر نکلنا چاہے اسے اس ٹوکن کو واپسی پر لگی سیکنر مشین کے مخصوص سوراخ میں داخل کرنے سے ہی باہر نکلنے کا راستہ کھل سکتا ہے۔ مسافروں کی آسانی کے لئے کارڈ سسٹم بنایا جانا بھی ایک اچھی کاوش ہے۔اس کے علاوہ ہر سٹیشن کی صفائی ستھرائی اور مسافروں کو گائیڈ کرنے کےلئے خصوصی عملے کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔30ارب روپے کی لاگت سے ریکارڈ مدت میں مکمل ہونے والا یہ منصوبہ معیار اور شفافیت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔یہ منصوبہ پنجاب کے دیگر شہروں میں شروع کرنے کے لئے پنجاب میٹرو بس اتھارٹی کے نام سے ایک محکمہ بھی قائم کیا گیا ہے۔دعا ہے کہ پنجاب کیا پورے ملک کی عوام کو اس قسم کا سفری سہولیت میسر آئے۔گھریلو خاتون سیماب رحمان نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی اس کاوش کو جتنا بھی سراہا جائے وہ کم ہے میں سمجھتی ہوں کہ اس طرح کی سفری سہولت دیگر صوبوں کے عوام کو بھی میسر ہونی چاہیے تاکہ وہ بھی آرام دہ سفر کا فائدہ اٹھا سکیں۔

ای پیپر دی نیشن