گلی محلوں کے زیرک بچے

شرفاء اور باعزت لوگ گلی محلوں کے منہ پھٹ بچوں سے دور رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔ گلیوں اور چوراہوں میں اٹھائے جانے والے ان کے طوفان بدتمیزی کو روکنے کی جرات نہیں کرتے بلکہ اپنی خاموشی کو دانش قرار دیتے ہیں کہ شرارتی اور ویلے بچوں کے منہ نہیں لگے جبکہ دوسری طرف شرارتی بچے اس بات پر پھولے نہیں سماتے کہ ان کی پاہو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں اور وہ آزاد بلکہ بالکل آزاد ہیں۔ بڑے بزرگ اور معزز لوگ تو ان منہ پھٹ بچوں سے عزت بچانے کی خاطر ان کے منہ نہیں لگتے اور وہ عقل کے اندھے سمجھ بیٹھتے ہیں کہ لوگ ان سے ڈرتے ہیں شاید اسی لئے تو اہل دانش کہہ گئے ہیں کہ ’’بدزبان کی سب سے بڑی سزا ہے کہ اسے ہر بار نظرانداز کرو‘‘ گلیوں محلوں اور بازاروں کے تھڑوں اور نکروں پر ٹائم گزارنے نے گپ شپ اور شرارتیں کرنے والے بچے کچھ تو حالات کے ستم کا شکار ہو کر منظر سے غائب ہو جاتے ہیں اور کچھ اپنی ہشیاری کے باعث شہرت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات خاص طور پر نوٹ کی گئی ہے کہ لاڈ پیار کے ماحول میں پلنے بڑھنے والے بچوں کی نسبت گلی محلوں میں زیادہ وقت گزارنے والے بچے زیادہ ہشیار اور زیرک واقع ہوتے ہیں محلوں اور حویلیوں میں پلنے والے بچے گلیوں کے راجاؤں کی نسبت پستہ ذہن ہوتے ہیں۔ گلیوں‘ بازاروں اور تھڑوں پر زیادہ وقت گزارنے والے بچے ضرورت سے زیادہ ذہین اور حاضر جواب بھی ہوتے ہیں کیونکہ وہ فطرت کا مشاہدہ کرتے ہیں اور گرد کے حالات و واقعات کا آنکھوں سے جائزہ لیتے ہیں۔ جیسے چور سے قطب بننے والی کہاوت مشہور ہے اسی طرح ہم نے بازاری پن کا شکار نوجوانوں کو وزیر مشیر بنتے ہوئے بھی دیکھا ہے بڑے نامور سیاستدانوں اور دانشوروں کے روپ میں بھی دیکھا ہے۔
اسے اللہ کا کرم ہی کہا جا سکتا ہے یا وقت کی مہربانی سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ خاص عوامی (بازاری) گفتگو کرنے والے بے شمار لوگ آج افق سیاست کے روشن ستارے بنے ہوئے ہیں۔ عابد شیر علی خود اقرار کرتے ہیں کہ وہ اپنے محلے کے شرارتی اور لڑاکے نوجوان تھے۔ خواجہ سعد رفیق کا بچپن اور جوانی کسی سے ڈھکی چھپی ہوئی نہیں۔ خواجہ آصف کا اسلوب بیان آج بھی حقائق کی چغلی کھاتا ہوا نظر آتا ہے۔
فرزند راولپنڈی شیخ رشید احمد کو حالات کے تھیٹروں نے آج اس مقام پر لاکھڑا کیا ہوا ہے کہ بڑے بڑے دانشور‘ لیڈر سیاستدان اور مذہبی سکالر اور زبان دراز حضرات ان سے ٹکراتے ہوئے گھبراتے ہیں۔
نت نئے شگوفے چھوڑنے والوں میں آجکل دو تین شخصیات کا طوطی بول رہا ہے اور پاکستان کا بچہ بچہ ان کے ناموں سے آگاہ و واقف ہے۔ تین چار نام تو تواتر کے ساتھ میڈیا کی کمزوری اور ضرورت بن چکے ہوئے ہیں جمشید دستی‘ فیصل رضا عابدی‘ عابد شیر علی اور شیخ رشید احمد بہت زیادہ اِن ہو چکے ہوئے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ٹی وی چینلوں کی ضرورت بن چکے ہیں۔شیخ رشید احمد کو جس کسی نے بھی جہاز سے اتارا کینیڈا جانے سے روکا نہایت سنگین غلطی کی اس عقل کے اندھے کی بصیرت پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ کینیڈین حکومت کا بیان منظرعام پر آچکا کہ شیخ رشید ایشو میں کینیڈین حکومت ملوث نہیں ہے۔ سرتاج عزیز کے بھونڈے سے جواب نے شیخ رشید کے قد میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور وہ ضرورت سے زیادہ اہمیت لے گئے ہیں۔ شیخ رشید احمد کو جہاز سے اتار کر جس کسی نے بھی یہ بھونڈی حرکت کی وہ حکومت پاکستان کا خیر خواہ نہیں۔ حکومت کو سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے۔ کہتے ہیں کہ کسی کو لیڈر بنانا ہو تو اسے جیل میں ڈال دو۔ باہر آنے پر لیڈر بنا ہو گا کسی کو شہرت دلوانی ہو تو اس کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کی جائے وہ شیخ رشید بن جائے گا۔شیخ رشید احمد بلاشبہ عوام کی بات کرتا ہے عوام کی زبان میں بات کرتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ان کی عوامی زبان سے کوئی بچ نہیں سکتا اگر وہ شریف برادران کے لئے لیتا ہے تو پی پی پی کی ایسی کی تیسی کرنے میں بھی کسر نہیں چھوڑتا کل تک وہ عمران خان کی ذات اور سیاست کا نقاد تھا۔ آج اتحادی بنا ہوا ہے۔ شیخ رشید احمد اور ملک غلام مصطفیٰ کھر میں ایک قدر مشترک ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی انہیں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں حالانکہ دونوں حضرات ہر جگہ لڑائی کر چکے ہوئے ہیں۔شیخ رشید کا اسلوب سیاست غلط ہے یا صحیح البتہ ایک بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جا سکتی ہے کہ شیخ رشید ہے بہادر انسان اس کا ماضی جاننے والے یقیناً مجھ سے اتفاق کریں گے کہ شیخ رشید اگر فرزند راولپنڈی ہے تو اسے نباض عوام کہنا بھی غلط نہ ہو گا۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے بعد شیخ رشید ہی تو ہے جس کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہے مگر افسوس کہ ابھی تک ناکام ہے۔
فیصل رضا عابدی عوام کی بات کرنے کے علاوہ مارشل لاء کی بھی بات کرتا ہے۔ الطاف بھائی بھی فوج کے داعی ہیں اور عوام کی بات کرتے ہیں جبکہ شیخ رشید کے سینے میں بھی فوج بارے SOFT CORNER موجود ہے کیا ہی اچھا ہو کہ عوام اور فوج کی بات کرنے والے ایک ہو جائیں اور مل جل کر کام کریں۔ نواز شریف حکومت کو مشورہ ہے کہ شیخ رشید کو حالات کے رحم و کرم پر ہی چھوڑ دیں تو ان کے لئے بہتر ہے۔

خواجہ عبدالحکیم عامر....سچ ہی لکھتے جانا

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...