دو خبریں حسب معمول چل رہی ہیں۔ جنرل مشرف پر غداری کیس کے لئے فرد جرم عائد کر دی گئی ہے اور مشرف کی ماں بہت بیمار ہے اس کی عمر 99 سال ہے۔اتنی طویل عمربھی ایک بیماری ہے۔میراسوہنااباکہاکرتاتھاکہ چلتے پھرتے موت آ جائے تو ایک نعمت ہے ورنہ موت زحمت بن جاتی ہے۔ پاکستان میں تو زندگی بھی لوگوں کے لئے زحمت بنی ہوئی ہے۔ 99 پر آﺅٹ ہونا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ مشرف کی ماں سنچری پوری کرے۔ اس لئے مجھے یاد آیا کہ بے باک نوجوان سیاستدان خواجہ سعد رفیق جیل میں تھے اور ان کی ماں بیمار تھیں پھر وہ فوت ہو گئیں مگر پیرول پر رہا نہ کیا گیا۔ وہ شہید خواجہ رفیق کی بیوہ تھیں۔ میں نے کالم لکھا کہ خواجہ صاحب کی ماں مشرف کی ماں سے افضل ہے کہ وہ شہید کی بیوہ ہے۔ اب لوگ مشرف کی ماں کے لئے اپیلیں کر رہے ہیں۔ مائیں سانجھی ہوتی ہیں۔
جہاں تک فرد جرم لگنے کا تعلق ہے پاکستان میں کچھ سیاسی لوگ بھی ایسے ہیں کہ ان پر ”افراد جرم“ لگنا چاہئے مگر ان کے خلاف مقدمات بنتے بھی ہیں تو ایک مذاق بن جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں وسائل کی کمی نہیں تو پھر لوڈشیڈنگ مہنگائی قتل و غارت دہشت گردی کیوں ہو رہی ہے۔ میرے خیال میں اس وقت نااہل حکمران ہونا بھی غیر آئینی ہے ہم اگر گنوانے پہ آئیں تو نجانے کیا کیا غیر آئینی ہے۔ آئین توڑنا غداری ہے تو آئین مروڑنا بھی غداری ہے یہاں کس کس غدار پر مقدمہ چلاﺅ گے۔ کرپشن کے مقدمات میں دس گیارہ سال جیل میں گزارنے والے سیدھے ایوان صدر پہنچتے ہیں۔ ایوان صدر میں بھی وہ قیدی رہتے ہیں وہ کچھ ایسا چکر چلاتے ہیں کہ قیدی اور قائد میں فرق مٹ جاتا ہے۔ پھر ہمارے سیاستدان سمجھتے ہیں کہ قائد بننے کے لئے قیدی بننا ضروری ہے۔ وہ جعلی ڈگری کے علاوہ کئی کام جعلی کرتے ہیں۔ پچھلی حکومت اور کئی صوبائی حکومتوں کے لئے مجھے کوٹ لکھپت جیل سے عمر قید کے ایک آدمی نے کہا کہ آج کل تو پاکستان پر قیدیوں کی حکومت ہے۔ کوٹ لکھپت جیل، اڈیالہ جیل، لانڈھی جیل وغیرہ وغیرہ کو مختلف حکومتوں کا ہیڈ کوارٹر بنانا چاہئے۔ میں دو ایک بار زرداری صاحب سے ملنے گیا تو وہ وہاں پر پورا دربار لگاتے تھے۔ گپ شپ لگتی ہنسی مذاق وغیرہ۔ اسی دن برادرم جہانگیر بدر پیپلز پارٹی کے لئے بہت قربانیاں دینے والے جہانگیر بدر ضمانت پر رہا ہو کر شاید سیدھے عدالت آ گئے تھے۔ کہنے لگے کہ صبح پیشی تھی میں نے محترمہ بینظیر بھٹو کو فون کیا۔ دعا فرماﺅ اور میری ضمانت ہو گئی۔ زرداری صاحب مخصوص مسکراہٹ کی شرارت کے درمیان بولے
میرے لئے بھی محترمہ سے دعا کراﺅ۔ ایک قہقہہ پڑا مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ محترمہ کو کس کی بددعا لگ گئی۔
مشرف نے بڑی ضد کرکے مجاہد صحافت ڈاکٹر مجید نظامی کو بلایا تو صحافیوں نے مشرف سے پوچھا کہ آپ نے امریکی وزیر خارجہ پا¶ل کی سب باتیں مان لیں وہ بات بھی مان لی جو فہرست میں نہ تھی۔ تو مشرف نے کہا کہ آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے۔ ایک سناٹا چھا گیا۔ اس کی شامت آئی کہ اس نے مجید نظامی سے پوچھ لیا کہ آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے۔ نظامی صاحب نے کہا کہ میں کیوں آپ کی جگہ پر ہوتا۔ میرے لئے نوائے وقت کی ادارت آپ کی صدارت سے زیادہ بیش بہا ہے۔ آپ بھی اپنی جگہ پر ہوتے تو یہ شرمندگی قوم کو نہ ہوتی۔ آرمی چیف بھی بہت بڑا منصب ہے۔
میں مشرف کی ماں کے لئے دعا گو ہوں۔ وہ مشرف سے بہت اچھی ہیں۔ مجید صاحب سے مشرف کی ناراضگی کے باوجود ناشتے کی میز پر نوائے وقت میں خبریں، ادارئیے اور کالم سنایا کرتی تھیں۔ میں نے کالم میں انہیں نوائے وقتن لکھا تو وہ بہت خوش ہوئیں اور میرے کالم کے کئی حوالے دئیے۔ وہ ایک محترم خاتون ہیں مگر لگتا ہے کہ انہوں نے مشرف کی اچھی تربیت نہیں کی بلکہ تربیت ہی نہیں کی۔ وہ ایوان صدر میں بھی مشرف کو اچھے مشورے دے سکتی تھیں۔ ایوان اقتدار میں کوئی حکمران کسی کی بات پر کان نہیں دھرتا۔ نواز شریف کو بھی ان کی ماں نے شاید مشورہ نہیں دیا۔ نواز شریف کی ماں انہیں کہے کہ وہ مشرف کو نیم جاں ماں سے ملنے دے۔ انہیں تو کلثوم نواز نے بھی کبھی کچھ نہیں کہا۔ مریم نواز اب اس پوزیشن میں نہیں کہ انہیں برا بھلا سمجھائیں مگر اس مقام پر حکمران اپنی بھی اچھی بات نہیں سنتے۔
مشرف کی ماں بیمار ہے۔ وہ اگر پاکستان نہیں آ سکتیں تو مشرف کو جانے دینا چاہئے۔ مشرف نے نواز شریف فیملی کو جانے دیا تھا جبکہ سعودی عرب ان کا کوئی مریض موجود نہیں تھا۔ نواز شریف کے جانے کے بعد مشرف نے آرام سے حکومت کی۔ نواز شریف کے لئے مشرف کا دردسر ہمیشہ رہے گا۔ یہ درد دل بھی بن سکتا ہے۔ میری تجویز ہے کہ وہ مشرف کو جانے دیں۔ اس طرح ان کے بہت سیاسی مسائل کم ہو جائیں گے مگر نجانے انہیں کون مشورے دیتا ہے۔ خاص طور پر یہ بات اہم ہے کہ چودھری نثار کے دل میں کیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ مشرف کے بہت قریبی وزیر امیر مقام اپنی نشست ہارنے کے باوجود نواز شریف کے مشیر ہیں۔ وہ کوئی مشورہ نواز شریف کو دیں، ظفر اقبال جھگڑا کے زخم تو ٹھیک ہو جائیں گے مگر نظر نہ آنے والے زخم ٹھیک نہ ہوں گے۔ میرے خیال میں اگر امیر مقام کو گورنر خیبر پی کے بنا دیا جاتا تو کوئی جھگڑا نہ ہوتا۔ دونوں نواز لیگی مل کے روتے اور روتے روتے خاموش ہو جاتے
تو ہائے گل پکار میں بولوں ہائے دل
ماروی میمن مشرف کے استعفیٰ اور بیرون ملک روانگی پر بہت روئی تھی۔ اب بھی شاید چھپ چھپ کر روتی ہو۔ وہ مریم نواز سے کہے اور دونوں مل کر نواز شریف سے کہیں۔ سنا ہے جدہ میں نواز شریف کسی کو اجازت نہ دیتے تھے کہ وہ بڑے میاں صاحب اپنے ابا جی کی وہیل چیئر کو ہاتھ لگائے۔ رائے ونڈ میں اپنی ماں کی وہیل چیئر کو وہ خود لے کے جاتے ہوں گے۔ وہ ہر ہفتے صرف اپنی ماں کو ملنے رائے ونڈ آتے ہیں
ماواں ٹھنڈیاں چھاواں
لوگ پریشان ہیں کہ کس نے پاکستان آنے کا مشورہ مشرف کو دیا تھا۔ مجھے اسلام آباد سے برادرم ملک صاحب نے بتایا کہ الطاف بھائی نے مشرف کو کہا تھا کہ کراچی میں آپ کا ایسا ہی استقبال ہو گا جیسے تہران میں امام خمینی کا ہوا تھا۔ امام خمینی کے ساتھ مشرف کا موازنہ صرف الطاف حسین بھائی ہی کر سکتے ہیں۔ مشرف کے استقبال کے لئے ایم کیو ایم کا ایک بھی کارکن نہ تھا۔ الطاف حسین بھائی بھی کبھی پاکستان نہ آئیں نجانے ان کے ساتھ کیا ہو؟