ایرانی جوہری پروگرام پر عبوری سمجھوتے کی ڈیڈ لائن کا آج آخری دن ہے۔ مذاکرات کار آج رات تک کسی سیاسی ڈھانچے پر متفق ہونے کیلئے کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں وہ تکنیکی تفصیلات کے حوالے سے ایک وسیع البنیاد معاہدہ چاہتے ہیں جس کیلئے 30جون کی حتمی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ سوئزرلینڈ کے شہر لوزین میں ہونیوالے مذاکرات میں ایرانی وفد کی سربراہی وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف کر رہے ہیں جبکہ امریکہ، جرمنی، فرانس، چین اور برطانیہ کے نمائندے بھی مذاکرات میں شامل ہیں۔ ایران مذاکرات میں کسی ڈیل کے امکان پر پُرامید ہے تاہم مذاکرات کے مشکل مراحل کے باعث بہت سے معاملات کا طے ہونا ابھی باقی سمجھتا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہوم ایٹمی پروگرام ایران کی پہنچ سے دور رکھنے کے حق میں ہیں۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ روس اور چین‘ ایران کی طرف سے دس سال سے زائد عرصہ کیلئے ایٹمی پروگرام کی معطلی چاہتے ہیں۔ ایران کے مذاکرات کار حامد بیدنجاد کے مطابق ایران کی جانب سے 15 سال تک جوہری پروگرام بند کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، واضح رہے اس سے قبل نومبر 2014ء میں امریکہ ایران کو 6000سینٹری فیوجز میں کام کرنے کو تسلیم کرنے کا اشارہ دے چکا ہے تاہم ایران ساڑھے چھ ہزار سے سات ہزار تک سینٹری فیوجز کو آپریشنل رکھنے پر مصر ہے۔ عالمی طاقتوں کا ایران سے سینٹری فیوجز مشینوں میں دو تہائی کمی اور جوہری مواد کا ذخیرہ روس کے حوالے کرنے کا مطالبہ ہے۔ ایران کا موقف دوٹوک ہے، وہ اپنے افزودہ شدہ یورینیم ذخائر کسی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کریگا۔ عالمی ڈیڈ لائن خاتمے پر ایسے میں افہام و تفہیم کی حکمت عملی ہی سودمند ہے۔ ایران اور مذاکرات میں شریک دیگر ممالک اپنے مشترکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھیں اور کسی مہم جوئی سے اجتناب کریں ۔ جارحیت مسلط کرنے کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جائے۔ ایران کی طرف سے بھی کچھائو گریز پالیسی ہونی چاہئے، لچک اور معاملات پر نظرثانی سے مسائل کے حل میں کوئی نہ کوئی صورت نکل آتی ہے۔ فریقین کا تحمل، بردباری اور صبر کے ساتھ کسی نتیجے پر پہنچنا مفید ہو گا۔
ایرانی جوہری پروگرام مذاکرات ڈیڈ لائن ختم ہو جائے‘ افہام و تفہیم برقرارہے
Apr 01, 2015