میری بیوی نے مجھ سے پوچھا کہ آج سویرے سویرے کہاں جا رہے ہو۔ میں نے کہا کہ گوجرانوالہ جا رہا ہوں۔ تو اس نے کہا کہ میں بھی آﺅں گی اور تکے کھاﺅں گی۔ میں پریشان ہوا کہ وہ بھی ساتھ آئے گی تو میں سیٹلائٹ کالج برائے خواتین گوجرانوالہ میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے کیا کہوں گا۔ وہ میرے سامنے بیٹھی ہو گی تو ایک دہشت زدہ شخص کیا کہہ سکتا ہے۔
سرگودھا پنجاب آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حلیم نے مجھے دعوت دی تھی اور شاعرہ ادیبہ ایک تخلیقی خاتون دوست صوفیہ بیدار سے سفارش بھی کرا دی تھی۔ اس طرح تعلیمی اداروں میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے تعلیمی ثقافتی اعتبار سے نوجوانوں میں ایک تحریک پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ سنگین حالات میں کسی حادثے کا مقابلہ کر سکیں۔
پنجاب آرٹس کونسل لاہور کے خواجہ نذرالاسلام میری گاڑی میں میرے ساتھ ہمسفر ہوئے ۔ لڑکیوں کا اتنا اچھا کالج دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہاں دہشت گردی کا کیا خطرہ ہے۔ پنجاب آرٹس کونسل کئی کالجوں میں اس طرح کے لیکچرز کا اہتمام کر چکی ہے۔ میں نے ایسا سیمینار اپنے گھر کے پاس پوسٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین وحدت کالونی لاہور میں اٹنڈ کیا ہے۔ اس کالج میں کبھی انکار مجھ سے نہیں ہو سکا کہ اس کالج میں میری پیاری بیٹی تقدیس نیازی پڑھتی رہی ہے۔ اس کالج میں پڑھنے والی ہر بچی میرے لئے تقدیس کی طرح ہے۔
گوجرانوالہ کا یہ کالج اتنا اجلا صاف شفاف کشادہ ہے کہ میں یہاں نہ آتا تو مجھے دکھ ہوتا۔ سیٹلائٹ ٹاﺅن گوجرانوالہ کے اس گرلز کالج کی پرنسپل سینئر پروفیسر عامرہ چیمہ اجالے کی طرح اجلی ایک گریس فل خاتون ہیں۔ ان کا سلیقہ دیکھ کر خواہش ہوئی کہ ہر گرلز کالج کی پرنسپل کو ایسی ہی باوقار اور بااعتبار ہونا چاہئے ۔ ڈاکٹر حلیم پنجاب آرٹس کونسل کے روح رواں ہیں۔ انہوں نے اس کالج کا انتخاب کرکے مہربانی کی کہ لڑکوں کے کالج میں ہمیں بہرحال ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں تو گپ شپ میں لڑکوں کو بھی اپنا دوست بنا لیتا ہوں مگر ایک دفعہ ایم اے او کالج میں مجھے لڑکوں نے انڈے مارے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں آج انڈوں سے ناشتہ کرکے آیا ہوں مگر انہوں نے اپنا شغل جاری رکھا۔ میں نے بھی اپنا شوق پورا کیا اور تقریر کرکے واپس آیا۔ لڑکیوں نے بڑے آرام سے اور معصومیت سے مجھے سنا۔
میرا خیال ہے کہ یہ معاملہ تعلیم سے ہی حل ہو گا مگر یہ مسئلہ سیاسی بھی ہے اور ہم غیر سیاسی طریقے سے اس کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک دفعہ ہمارے حکمران اس سلسلے میں بھارت کا نام تو لیں۔ بھارت میں پٹاخہ بھی پھوٹے تو الزام پاکستان پر دھر دیتے ہیں مگر ہم اسے سفارتی اور سیاسی سطح پر نہیں لانا چاہتے۔
اب آپریشن ضرب عضب کے بعد ایک سچے مقابلے کی بات آئی ہے تو دہشت گرد اب صرف آوارہ گرد رہ گئے ہیں۔ ان کی آوارہ گردی بھی ختم ہو جائے گی۔ میں سوچنے لگا کہ اتنے اچھے کالج میں دہشت گردی کا کیا خطرہ ہے۔ دہشت گرد شرم کے مارے واپس چلا جائے گا۔ مگر بچیاں گھر جائیں گی۔ گھر والوں کو کچھ بتائیں گی۔ گھر کو جنت لڑکی اور عورت ہی بنا سکتی ہے۔ یہ ملک بھی گھر کی طرح ہے۔ اسے بھی جنت عورت بنائے گی۔ بس ہم عورت کو ذرا موقع دیں۔ موقع دیں تو وہ اس ملک کی وزیراعظم بھی بن سکتی ہے۔ میرا اشارہ مریم نواز کی طرف نہیںہے۔ میں ان کی بہت سی باتوں کو پسند کرتا ہوں۔ وہ صرف وراثت کے حوالے سے نہیں ذاتی طور پر کوئی نہ کوئی کردار پاکستانی سیاست میں ادا کر سکتی ہیں۔ یہاں چودھری شاہد اور ادریس ناز نے بھی خطاب کیا۔ ادریس ناز صاحب ”ناز برداریاں“ کے نام سے کالم بھی لکھتے ہیں۔ میرے کالم ”بے نیازیاں“ کا بھی انہوں نے ذکر کیا۔ پروفیسر سماویہ نے بہت زبردست کمپیرنگ کی۔ سب سے اچھی گفتگو پرنسپل پروفیسر عامرہ چیمہ کی تھی۔ میں نے سوچا کہ وہ یہاں ہیں تو مجھے بلانے کی کیا ضرورت تھی۔ مگر اس بہانے میں نے بھی ان کی جچی تلی باتیں سن لیں۔
مجھے ڈاکٹر سلیم نے بتایا کہ چیئرمین پنجاب آرٹس کونسل کمشنرشمائل احمد خواجہ نے اس سیمینار میں بہت دلچسپی لی۔ وہ بہت ذوق و شوق والے آدمی ہیں۔ دو دن قبل ان سے ملاقات ہوئی۔ بہت اچھے دوست اور کالم نگار فاروق عالم انصاری کے ساتھ ان سے ملاقات ہوئی۔ بابو افتخار اور بہت ذہین نوجوان بیرسٹر وقاص فاروق بھی ساتھ تھے۔ بڑے ذوق و شوق والے شمائل صاحب سے مل کر اچھا لگا۔ اتنے دوستانہ مزاج کے افسر کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے والد محترم بہت کتاب دوست تھے۔ ہمیں بھی کتاب سے آشنائی ہوئی۔ وہ نوائے وقت پڑھتے تھے۔ میں بھی اب تک نوائے وقت پڑھتا ہوں۔ میں نے انہیں کہا کہ مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی ایسے آدمی کو نوائے وقتیا کہتے تھے۔