کراچی(بی بی سی ) کراچی کی آغا خان یونیورسٹی کے محقق ڈاکٹر نوید احمد خان نے کہا ہے کاکروچ کے دماغ سے اینٹی بائیوٹیکس تیار کی جاسکتی ہے انہیں 9 اینٹی بیکٹریل مالیکیول ملے ہیں جن کی وہ اب شناخت کر رہے ہیں تا کہ مستقبل میں ان کا کیمیائی تجزیہ کرسکیں اور کیمیکل کی شناخت اور تیاری کے بعد مارکیٹ میں مہیا کیا جاسکے گا۔محقق ڈاکٹر نوید احمد خان کو جراثیم کی کھوج نے اپنے بچوں کے باتھ روم سے کاکروچ کے دماغ تک پہنچا دیا ہے۔ بائیولوجیکل اینڈ بائیو میڈیکل سائنس کے شعبے پروفیسر نوید احمد خان بتاتے ہیں کہ جب انکے بچے ہوئے تو ہر دوست یہ مشورہ دیتا تھا کہ انہیں غیر صحتمند ماحول میں نہ چھوڑیں ۔ ’میرے ذہن میں خیال آیا کہ ہم تو اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان جراثیموں اور جانداروں کو تو قدرتی طور پر تحفظ مل رہا ہے ۔ کاکروچ کا شمار کرۂ ارض کے قدیم جانداروں میں ہوتا ہے بعض محققین کا تو یہ بھی خیال ہے کہ ایٹمی حملے کے بعد بھی اگر کوئی جاندار بچ سکتا ہے تو وہ کاکروچ ہے۔ ان خوبیوں کی وجہ سے ڈاکٹر نوید احمد خان نے اپنی تحقیق کیلئے کاکروچ کا ہی انتخاب کیا۔ بعض محققین کا تو یہ بھی خیال ہے کہ ایٹمی حملے کے بعد بھی اگر کوئی جاندار بچ سکتا ہے تو وہ کاکروچ ہے کاکروچ کے جسم کے تمام حصوں اور خون کو الگ کرکے ان کا مشاہدہ کیا گیا اور کاکروچ کے مضبوط مدافعتی نظام کی وجہ تلاش کرلی گئی۔ کاکروچ کے دماغ سے انہیں 9 اینٹی بیکٹریل مالیکول ملے ہیں جن کی وہ اب شناخت کر رہے ہیں تا کہ مستقبل میں ان کا کیمیائی تجزیہ کرسکیں اور جب کیمیکل کی شناخت ہوجائیگی تو اسکو تیار کرکے مارکیٹ میں مہیا کیا جاسکے گا۔ اینٹی بائیوٹکس کو متعارف کرانا انتہائی طویل اور مہنگا کام ہے، اس لیے اس پر تحقیق بھی محدود ہے۔ ڈاکٹر نوید احمد خان کا کہنا ہے کہ مالیکیول کی شناخت اور کیمیکل کی تیاری کے بعد اس کو جانوروں اور بعد میں کسی رضاکار پر آزمایا جائے گا اس پورے مرحلے میں ابھی کم سے کم دس سال کا عرصہ درکار ہے۔