صدیق اکبر ؓ کا طرز حکمرانی

Apr 01, 2016

امتیاز احمد تارڑ

دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے‘ انداز حکمرانی کے کتنے فلسفے تخلیق ہوچکے ہیں‘ انسانی تہذیبوں نے بلندیوں کو چھوا لیکن آج بھی ابوبکرؓ کے کارنامے ہمارے لیے مشعل راہ ہیں حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’ابوبکرؓ اپنی صحبت اور مال کے لحاظ سے میرا سب سے بڑا محسن ہے۔‘‘ آپؓ ؓسب سے پہلے اسلام لائے ۔اپنا تن من دھن آقا پر قربان کیا ۔ گھر کا سارا سامان اللہ کے حضور ﷺکی بار گاہ میں پیش کیا ۔قبولِ اسلام کے بعد سے آقا کے وصال مبارک تک ہمیشہ سفر وحضر میں آپکے رفیق رہے آپ تمام صحابہ کرام ؓمیں سب سے زیادہ سخی تھے۔آپ نے کثیر مال خرچ کرکے کئی مسلمان غلام آزاد کرائے۔ ایک موقع پر سرکارِ دوعالم ؐنے فرمایا، ابوبکرؓ کے مال نے مجھے جتنا نفع دیا اتنا کسی کے مال نے نہیں دیا۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓنے روتے ہوئے عرض کی، ''میرے آقا! میں اور میرا مال سب آپ ہی کا ہے''۔آپ اسلام میں ثانی، غار میں ثانی، یومِ بدر میں سائبان میں ثانی اور مدفن میں بھی حضور ؐکے ساتھ ثانی ہیں۔ امیرالمومنین منتخب ہونے کے اگلے روز آپ نے قصد کیاکہ اپنی تجارتی سرگرمیوں کا آغاز کریں تاکہ معاشی معاملات کو انجام دیا جا سکے۔ راستے میں حضرت عمر ؓسے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے آپ ؓسے عرض کیا " یا امیرالمومنین ! آپ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟" آپؓ نے فرمایا "تجارت کی غرض سے بازار کی طرف جارہا تھا"۔ حضرت عمر ؓنے فرمایا " اب آپ امیر المومنین ہیں"،" تجارت اور مسلمانوں کے باہمی معاملات ایک ساتھ کیسے چلیں گے ؟"۔ آپ نے فرمایا " بات تو آپ (عمرؓ) کی درست ہے مگر اہل وعیال کی ضروریات کیسے پوری کی جائیں گی؟"۔ حضرت عمر ؓنے عرض کیا " آئیے حضرت ابوعبیدہ ؓکے پاس چلتے ہیں اور ان سے مشورہ کرتے ہیں۔ (واضح رہے کہ حضرت ابوعبیدہ کو رسول اکرم نے امت کا امین مقرر کیا تھا اسی لئے بیت المال کی نگرانی بھی آپ ہی کے ذمہ تھی۔) حضرات شیخین ، امین الامت کے پاس پہنچے اور صورتحال ان کے سامنے رکھ دی۔ امین الامت ؓنے فرمایا " اب ابوبکر ؓمسلمانوں کے خلیفہ ہیں۔ مسلمانوں کے مسائل اور معاملات کے ذمہ دار ہیں۔ خلافت کے معاملات کو نبٹانے کیلئے طویل وقت اور سخت محنت درکار ہوتی ہے۔ اگر خلیفہ تجارت کرینگے تورعایا کا حق ادا نہ کرسکیں گے۔ لہذا انکی اور انکے اہل وعیال کی ضرورت کیلئے بیت المال سے وظیفہ مقرر کردینا چاہیے۔ اب سوال یہ تھا کہ وظیفہ کی مقدار کتنی ہو؟ اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ "جتنا مدینے کے کسی ایک مزدور کی آمدنی ہوتی ہے اتنا کافی رہے گا"۔ عرض ہوا کہ اتنے کم سے تو آپ کا گزارہ نہیں ہو سکے گا " آپ نے فرمایا "اگر اس سے ایک عام آدمی کے گھر کا گزارہ ہوسکتا ہے تو خلیفہ کا بھی ہونا چاہیے۔ اگر نہیں ہوسکتا تو اس کا مطلب ہے کہ ایک عام مزدور کس طرح گزارہ کرتا ہوگا"۔ چناچہ خلافت اسلامی کے اس پہلے تاجدار کا وظیفہ ایک عام مزدور کے مساوی مقرر ہوا۔حوالہ درکاربعد ازاں آپ نے اس قلیل رقم میں مزید کمی کروا دی۔ واقعہ یوں ہے کہ آپ کو میٹھا مرغوب تھا۔ اب روز جو مقدار بیت المال سے عطا ہوتی اس میں ہی گزارہ کرنا دشوار تھا چہ جائیکہ میٹھا کہاں سے آتا ؟ آپؓ کی زوجہ محترمہ نے یہ کیا کہ روز جو آٹا بیت المال سے آتا تھا اس میں سے چٹکی چٹکی جمع کرنا شروع کردیا۔ جب اسکی مقدار زیادہ ہوگئی تو ایک روز میٹھا تیار کرکے دسترخوان پر رکھا گیا۔ آپ نے فرمایا " یہ کہاں سے آیا؟ "۔ زوجہ محترمہ نے عرض کیا " گھر میں بنایا ہے" آپ نے فرمایا " جو مقدار ہم کو روزانہ ملتی ہے اس میں تو اسکی تیاری ممکن نہیں؟"۔ زوجہ محترمہ نے سارا ماجرا عرض کیا۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا " اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم کو اتنی مقدار ( جو روز کفایت کی گئی) ہم کو روزانہ زیادہ ملتی ہے اس سے کم میں بھی گزارہ ہوسکتا ہے۔ لہذا اس کو بیت المال میں داخل کروا دیا جائے اور آئندہ سے روزانہ ملنے والے وظیفے سے یہ مقدار کم کردی جائے"۔یہ ایک تاریخ ساز حقیقت ہے کہ خلیفہ المسلمین، جانشین پیغمبر حضرت ابو بکر صدیق ؓنے خلافت کا منصب و ذمہ داری سنبھالتے ہی پہلے روز اپنے خطبے میں جس منشو ر کا اعلان فرمایا پورے دور خلافت میں اسکے ہر حرف کی مکمل پاسداری کی۔ حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آقا ونے فرمایا، تم میں سے آج کون روزہ دار ہے؟ سیدنا ابوبکرؓنے عرض کی، میں ہوں۔ پھر حضور نے فرمایا، تم میں سے آج کس شخص نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟ سیدنا ابوبکر ؓ نے عرض کی، میں نے۔ پھر ارشاد ہوا،تم میں سے آج کس شخص نے مریض کی عیادت کی؟ آپ ہی نے عرض کی، میں نے۔ آقا کریم انے فرمایا، جس شخص میں (ایک ہی دن میں)یہ اوصاف جمع ہونگے وہ جنتی ہو گا۔حضرت عمر ؓ کے پاس حضرت ابو بکر ؓکا ذکر ہوا تووہ روپڑے اور فرمایا، میں چاہتا ہوں کہ میرے سارے اعمال اْنکے ایک دن کے اعمال جیسے یا اْنکی ایک رات کے اعمال جیسے ہوتے۔ پس رات تو وہ رات ہے جب وہ رسول اللہؐ کے ساتھ غار کی طرف چلے۔ جب غار تک پہنچے تو عرض گزار ہوئے، خدا کی قسم! آپ اس میں داخل نہیں ہونگے جب تک میں اس میں داخل نہ ہو جاؤںکیونکہ اگر اس میں کوئی چیز ہے تو اس کی تکلیف آپ کی جگہ مجھے پہنچے۔ پھر وہ داخل ہوئے اور غار کو صاف کیا۔ اس کی ایک جانب سوراخ تھے تو اپنی ازار کو پھاڑ کر انہیں بند کیا۔ دو سوراخ باقی رہ گئے تو انہیں اپنی ایڑیوں سے روک لیا۔ پھر رسول اللہ کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے کہ تشریف لے آئیے۔ رسول ْاللہ اندر داخل ہوئے اور انکی گود میں سرِ مبارک رکھ کر سو گئے۔پس ایک سوراخ میں سے حضرت ابوبکر ؓ پیر میں ڈنگ مارا گیا تو انہوں نے اس ڈر سے حرکت نہ کی کہ آقا ومولی بیدار ہوجائینگے لیکن انکے آنسو رسول اللہؐ کے نورانی چہرے پر گر پڑے۔ فرمایا کہ ابو بکرؓ ! کیا بات ہے؟ عرض کیا، میرے ماں باپ آپ پر قربان، مجھے ڈنگ مارا گیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہؐ نے لعابِ دہن لگا دیا تو انکی تکلیف جاتی رہی۔ پھر اس زہرنے عود کیا اور وہی انکی وفات کا سبب بنا۔آج ابوبکرؓ کا سر حضور ﷺ کے سینہ مبارک سے ذرا فاصلے پر رکھا ہے‘ زندگی بھر کا رفیق ایک ایسی رفاقت کی لذتیں سمیٹ رہا ہے جو ابد تک جاری رہیں گی۔

مزیدخبریں