’’پر آشوب ہفتئہ رفتہ‘‘

کئی سال سے وطن عزیز میں طرح طرح کے پریشان کن حالات پیدا ہوتے رہے ہیں مگر گذشتہ ہفتے میں کچھ ایسے واقعات ایک دم رونما ہوئے جن سب کے ساتھ سنگین چیلنجز وابستہ ہیں۔لہٰذا تمام کو یکجا زیر بحث لاتے ہیں۔
سب سے پہلے انڈین ’را‘ کے افسر کل بھوشن یادیو کا منظر عام پر لایا جانا ہے جو 3مارچ سے پاکستانی ایجنسیوں نے بلوچستان سے پکڑرکھا تھا اور ابتدائی پوچھ گچھ کے دوران اس نے اہم انکشافات کئے۔یہ انڈین نیوی میں کمانڈر کے عہدے پر فائز ہے جو لیفٹیننٹ کرنل کے برابر ہوتا ہے اور اسے 2022؁ء میں ریٹائر ہونا ہے۔ 2003؁ء سے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار میں حسین مبارک پٹیل کے نام سے بظاہر شپنگ کے کاروبار سے منسلک وہاں مقیم تھا۔اس دوران وہ کئی بار پاکستان کے اندر آیا۔علیحدگی پسند بلوچوں کو فنڈ دیئے اور کئی دہشت گردی کے واقعات کروائے ۔گوادر اور کراچی بھی جاتا رہا بلکہ 2003؁ء اور 2004؁ء میں وہ زیادہ تر کراچی میں رہ کر ’را‘ کا کام کرتا رہا ۔اس کی نشاندہی پر حب سے اس کا ساتھی راکیش گرفتار ہوچکا ہے۔وہ براہِ راست انڈین نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کے نیچے کام کر رہا تھا اور اسے یہاں 30/40ایجنٹ تیار کرنے کا ہدف دیا گیا تھا۔گوادر میں چائنیز پردھماکہ ،مہران بیس پر حملہ ، کراچی میں SSPچوہدری اسلم کی شہادت، ٹائیگر فورس کا قیام و بیشتر خونریز وارداتوں میں اس نے اپنا کردار تسلیم کیا۔اب اسکا بڑا ٹارگٹ گوادر پورٹ تھا تاکہ CPECمنصوبے کو خراب کیا جا سکے ۔وہ ایک ہائی پروفائل جاسوس ہے جسطرح کا اس سے پہلے کبھی ہاتھ نہیں آیا۔اسکے پروفائل کا اندازہ اسکودیئے گئے اہداف سے ہی لگایا جا سکتا ہے ۔ایسے آدمی کو ٹریپ کرنے کے پیچھے ایجنسیوں کے ماہ و سال کی کوشش ہوتی ہے۔ اس کو پکڑ نے اور اتنی ساری باتوں کا اعتراف کروا لینے پر ہماری ایجنسیاں زبردست خراجِ تحسین کی مستحق ہیں۔ مگر عشق کے بڑے امتحان آگے ہیں۔ہمارے لئے یہ دیکھنے کی حد تک جاننا ضروری ہو گیا ہے کہ ہمارے بے گناہوں کے خون گرانے میں کون کون شامل رہا۔انکے آگے نیٹ ورک کیا کیا ہیں۔ہماری کس کس کمزوری کو دشمن نے ایکسپلائٹ کیا۔30/40ایجینٹوں میں سے کتنے تیار کرلئے گئے ، ان کیلئے مراعات اور ٹارگٹ کیا رکھے گئے اور وہ اس وقت کہاں کہاں ہیں۔اسکے مددگار اور کتنے انڈین ایجنٹ پاکستان اور ایران میں ہیں۔ جہاں تک آئندہ گوادر اور CPECکو سبوتاژ کرنے کے ٹاسک کا تعلق ہے یہ ایک بہت بڑا سٹریٹیجک ہدف ہے اوراتنے بڑے مقصد کیلئے کئی مراحل بنائے گئے ہونگے ۔وہ کیا ہیں؟ پھران مراحل کے اندر کونسے ٹارگٹ رکھے گئے ہونگے اور انڈیا سے تاجروں، صعنتکاروں ،انجینئر ز اور ورکرز وغیرہ کے روپ میں کمک کس کس ملک کے ذریعے یہاں پہنچی تھی وغیرہ وغیرہ۔یہ وہ چیلنجز ہیں جن کے حل ہمیں اپنے طور پر دیگر ذرائع سے تلاش کرنے ہیں۔مجھے یقین ہے ہماری ایجنسیاں اس سے بھی آگے سوچنے اورپرکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ہمیں فی الوقت اتنا کرنا ہے کہ نہ تو قومی سطح پر اسقدر نقصان پہنچانے والے کو کسی بھی مصلحت یا پریشر کے تحت جانے دیا جائے اور نہ اس قوم کے رام رام کرنے پر اعتماد کیا جائے جس کی بغل کی یہ چھری ہے۔آج جو کوئی بھی گوادر میں کسی کام سے رہنا چاہتا ہے اس کی مکمل جانچ پڑتال کی جائے۔یہ جاسوس بھی چاہ بہار میں اسوقت آباد ہوا تھا جس وقت انڈیا وہ بندرگاہ ڈیویلپ کررہا تھا۔ایران کے ساتھ اس معاملے کا اٹھایا جانا درست قدم ہے، ایران کی اس میں مرضی نہ بھی شامل ہو تو بھی سوال اٹھتا ہے کہ ایک بندرگاہ پر اسطرح کا کردار سالہا سال سے کسطرح ان کی نظروں سے اوجھل رہا اور ’را‘ کے سینئر افسر ان کس ناطے سے اپنے جاسوس چھڑوانے کیلئے ایران پہنچ گئے ہیں۔اب ہمیں اپنا کیس مضبوط بنا کر ہر حالت میں عالمی فورم پر نہ صرف لیکر جانا ہے بلکہ اسے ایک مستقل کیس کا درجہ دلانا ہے۔اگر ایک چھوٹے سے ممبئی واقعے پر دنیااسقدر دلچسپی لے سکتی ہے تو ہمارے ملک میں اتنے بڑے واقعات کے محرّک اور انڈیا کی طرف سے ہماری سٹریٹیجک تباہی کی پلاننگ پر کیوں نہیں؟
دوسرا بہت بڑا اندوہناک واقعہ اتوار کو گلشن اقبال پارک میں 400معصوم افراد کو خون میں نہلادینے کا ہوا۔ ان میں سے 78تو شہادت پا گئے اور سینکڑوں ہسپتالوں میں زندگی و موت کی کشمکش میں ہیں۔ہم نے اپنی ڈرل دہرا دی۔ ارباب اقتدار نے مذّمت بھی کی ،زخمیوں کی عیادت بھی، اور دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم والے الفاظ بھی کہہ ڈالے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دن ہر دل سے خون بہہ رہا تھا۔نوجوانوں نے خون کے عطیات کی بھر مار کردی مگرروّیہ، وہی حکومت پر مکمل انحصاری اور تنقید ۔کاش میری گذارشات پر بھی کوئی توجہ دیتا۔میں چھ سال سے لکھ رہا ہوں کہ اس جنگ کیلئے پولیس ناکافی ہے۔سوسائٹی کو از خود اپنی گلیاں دہشت گردوں کیلئے بند کر کے اپنی فورسز کے پیچھے کھڑا ہونا ہوگا اور حکومت کو اس عمل کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ہماری یہ تیاری اگلے کئی سال کیلئے ہونی چاہیے۔
تیسرا واقعہ لیاقت باغ راولپنڈی میں ممتاز قادری کے چہلم کی دعا کے بعد اسلام آباد کی طرف احتجاجی جلوس کے مارچ کی صورت میں روپذیر ہوا۔ عین اسوقت جب گلشن اقبال پارک میں قیامت کا منظر تھا احتجاجی جلوس ریڈزون اسلام آباد میں داخل ہو رہا تھا۔ادھر بھی پولیس جوانوں سمیت 41لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاع تھی ۔ پتہ چلا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد پولیس دونوں ہی اس کیلئے تیار نہ تھے۔ میں اس دن اسلام آباد میں ہی تھا۔رات گئے تک کافی لوگ یہ امید کر رہے تھے کہ گلشن اقبال سانحہ کے پیش نظر ،شائد علماء دھرنا کچھ دنوں کیلئے مؤخّر کر دیں گے۔جب ایسا نہ ہوا تو اس شک کا اظہار کیا جانے لگا کہ لاہور اور پنڈی میں بیک وقت واقعات کسی سازش کا نتیجہ ہیں جسکا مقصد جنوبی پنجاب میں سنائی دیئے جانیوالے اپریشن کا رخ اس طرف موڑنا ہوسکتا تھا۔ اسلام آباد میں موبائل فونز پر پابندی سے زندگی مفلوج تھی مگر انٹرنیٹ پر کافی افواہیں اور وڈیوز احتجاجیوں کے افکار اور خطبے پیش کرتی رہیں۔ایک وڈیو میں انہیں ہوائی جائزہ لینے والے ہیلی کاپٹروں پر جوتے پھینکتے دکھایا گیا جو واپس گرنے ہی تھے۔ حقیقت میں اسوقت مجھے اپنے لوگوں کی معصومیت پر بہت ترس آیا اور تہہ دل سے چاہا کہ حکومت کسی طرح انہیں فورس استعمال کے بغیر سنبھال لے۔شکر ہے حکومت نے صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے معاملات کو سلجھا دیا۔ایک چیز ہمیں واضح ہونی چاہیے کہ کوئی حکومت میں ہویا جھونپڑی میں سر چھپانے والا ، حرمت رسولﷺ سے والہانہ عشق رکھتا ہے۔لہٰذا ہمارے سیاسی و سنیاسی علماء کو اس عظیم جذبے والوں کو گروہ بندی و دیگر مقاصد کیلئے استعمال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔انڈین پالیسی میں پہلے ہی ہمارے آپس کے مذہبی اختلافات کو استعمال کرنا بلکہ ہم سے ہی کرواناسر فہرست ہے۔
کیس کلبھوشن کا ہو، گلشن اقبال میں خون کی ہولی، پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان کے عملدرآمد پر غیر ضروری بحث یا معصوم شہریوں سے دارالخلافہ کو آئے دن مفلوج کرنا، سب کے سب واقعات نہیں، جڑوں والے پھوڑے ہیں جو قیادت کی جراحی اور قوم کے اجتماعی تدبّر کا امتحان ہیں۔

کرنل (ر) زیڈ ۔آئی۔فرخ....نئے راستے

ای پیپر دی نیشن