کیا ہم فریاد ہی کرتے رہیں گے

پاکستان میں ہر بجٹ کے بعد حکومتی لوگ یہ کہتے ہیں۔ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ عائشہ غوث پاشا نے سب سے پہلے یہ بات کی ہے۔ مبارک ہو مگر بجٹ میں ٹیکس نہ ہونے کے باوجود مہنگائی رکتی ہی نہیں۔
میرا خیال ہے کہ مہنگائی کا کوئی نہ کوئی تعلق بجٹ میں ٹیکس نہ لگانے کے ساتھ ہے؟ اس کے بعد شاید ٹیکس لگانے کے لئے کوئی دشواری نہیں ہوتی ہے مگر ایک بات غور طلب ہے بلکہ غور کے بغیر بھی سمجھ آ جاتی ہے کہ پھر حکومتی سیاسی لوگ بجٹ جیسا بھی ہو‘ وہ اس کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں اور جو حزب اختلاف میں ہوتے ہیں‘ وہ صرف بجٹ کی برائی بیان کرتے ہیں۔
ایک سیاستدان وزیر خزانہ تھا۔ اس نے بجٹ کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔ پھر دوسرے دور میں ان کی جماعت اقتدار حاصل نہ کر سکی۔ اس نے بجٹ کی ایسی تیسی پھیر دی۔ اگرچہ بجٹ ویسا ہی تھا جو پچھلے سال تھا۔
وزیر خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا ہے کہ آنے والے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔ بجٹ عوام دوست ہو گا۔ ان کی پیروی میں کئی حکومتی لوگوں نے اپنی اپنی بات کی اور بات وہی ہے جو عائشہ غوث نے کی ہے۔
پاکستان میں کبھی کسی دن چیزوں کے سستا ہونے کی خبر نہیں آتی۔ ہمیشہ کسی نہ کسی چیز کے مہنگا ہونے کی خبر آتی ہے۔ لوگ اب یہ خبریں نہیں پڑھتے۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ اب مہنگائی کے لئے لوگ صرف کڑھتے ہیں۔ کوئی شور شرابہ نہیں‘ کوئی ہڑتال نہیں‘ بھوک ہڑتال؟ بھوک تو انہیں ہر وقت لگی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر وقت بھوک ہڑتال میں ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں عجب رواج چلا ہے کہ جب کسی چیز کے لئے مطالبہ کیا جاتا ہے تو کوئی پروا نہیں کرتا۔ لوگ جب تنگ آ کر ہڑتال کرتے ہیں۔ پھر جب وہ تنگ ہو کر باہر نکلتے ہیں تو لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ تو پھر سب مطالبات مان لئے جاتے ہیں اور سارا کریڈٹ ان لوگوں اور عورتوں کو ملتا ہے جو دھرنے پر بیٹھے ہوتے ہیں۔
میں نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کو سڑک پر احتجاج کرتے ہوئے کئی دنوں سے دیکھا اور پھر جب ان کے جائز مطالبات مان لئے گئے تو وہ ایک دوسرے کے ساتھ بغلگیر ہو رہی تھیں۔ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہی تھیں تو سارا کریڈٹ ان مظلوم عورتوں کو جاتا ہے۔ سرکاری لوگ کہاں ہیں۔ افسران اور حکمران؟
آج کل ”فریادی“ کا لفظ بہت زیربحث ہے۔ پاکستان میں تو ہر شخص فریادی ہے۔ اگر وزیراعظم کے لئے فریادی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے تو اس پر اتنا شور مچ گیا ہے۔ خود وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو وضاحت کرنا پڑی ہے۔ ہمیں شاہد خاقان عباسی کے ساتھ بڑی ہمدردی ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی صدر‘ کوئی وزیراعظم یا کوئی وزیر شذیر بھی فریاد نہیں کرتا تو آخر شاہد خاقان عباسی کو ایسی کیا ضرورت پڑ گئی تھی۔ ممکن ہے انہوں نے مروت میں یا انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہوئے ایک چیف جج کو مروتاً کوئی ایسی ویسی بات کر دی ہو جسے مخالفین نے فریاد کے معانی پہنا دیئے ہوں۔
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اس میں تھوڑا سا کردار خود عباسی صاحب کا بھی ہے۔ انہوں نے وزیراعظم بنتے ہی کہہ دیا تھا کہ میں وزیراعظم نہیں ہوں۔ یہ کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ جب نواز شریف نے انہیں اپنے بعد وزیراعظم بنا دیا تھا تو پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی۔
تو پھر لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بھی آ سکتا ہے کہ اس ملاقات کے لئے بھی نواز شریف نے شاہد خاقان عباسی کو کہا ہو میرا خیال ہے کہ یہ اتنی بڑی بات نہیں ہے جسے بحث و تکرار کا موضوع بنایا جا سکے۔ کسی قومی مسئلے یا اجتماعی موقعے کی بات ہو تو پھر بات ہو۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...