لاہور کی ریڑھ کی ہڈی پہلے ہی اورنج لائن ٹرین کے ٹریک کی تعمیر کی وجہ سے گزشتہ تین ماہ سے ٹریک پر نہیں ہے۔ جی پی او چوک جیسے اہم مرکز سے ٹرین کو زیر زمین گزرنا ہے اور اس بڑے پروجیکٹ کی تکمیل کا تقاضا تھا کہ چوک کو چاروں طرف سے بند رکھا جاتا۔ لاہور ٹریفک کے سربراہ اور ان کی ٹیم نے اس مشکل وقت کا زیادہ حصہ ٹریک پلان حسب ضرورت بدل بدل کر صورتحال کو خراب ہونے سے بچائے رکھا مگرا اس کا کیا کیا جائے کہ صوبہ بھر کے دکھوں کے مارے مختلف طبقات نے اپنے مطالبات پر زور دینے اور حکومت پر دبائو بڑھانے کے لئے اپنا سارا وزن شاہراہ قائداعظم پر ڈالنے کی روائت کو تسلسل دے رکھا ہے اچانک ایک صبح شاہراہ قائداعظم کو استعمال کرنے والے دیکھتے ہیںکہ ٹریفک پولیس نے راستہ بند کر رکھا ہے۔ کبھی کلرک حضرت، کبھی نابینا حضرات، کبھی علماء کرام کاکوئی دھڑا، کبھی کوئی سیاسی جماعت گورنر ہائوس ، پنجاب اسمبلی یا اس کے آس پاس کسی جگہ آلتی پالتی مارے، گھن گرج والے سپیکر آن کئے۔ ’’دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا مرنا ہوگا مرنا ہو گا،، کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔ ہزاروں شہری جو گھروں سے اپنا ٹائم ٹیبل اور شیڈول دیکھ کر دفتر، کالج، یونیورسٹی بازار، ہسپتال یا عدالتوں میں پہنچنے کے لئے نکلے ہوتے ہیں پل جھپکنے میں اضطرابی حالت میں شاہراہ قائداعظم، پریس کلب چوک یا ایم اے او کالج کے پاس اچانک بے ترتیب ہونے والی ٹریفک میں پھنس جاتے ہیں۔ ان دنوں میں لیڈی ہیلتھ ورکرزنے چند روز دھرنا دیا ہے۔ تو صورت حال ایسی ہی ہوئی ہے۔ دھرنے کے چوتھے روز پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کے سیکرٹری (ہیلتھ) نے میڈیا کے ذریعے واضح کیا کہ لیڈی ہیلتھ ورکروں کے مطالبات مان لئے گئے ہیں مگر ’’اہل دھرنا‘‘ پر زیادہ اثر نہیں پڑا۔ پھر وزیر قانون رانا ثناء اللہ اس کی طرف سے پریس کانفرنس بھی بیچ میں رہ گئی۔ لاہور ہائی کورٹ نے دھرنے کے خاتمے کے لئے حکومت کو ہدایات دیں اور پھر جو انجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ جب چند ہفتے پہلے نابینا حضرات نے پہلے شاہراہ قائداعظم اور پھر کلمہ چوک پر ’’کلمہ حق‘‘ بلند کیا تھا تب بھی کسی فیصلے پر پہنچنے میں متعلقہ حضرات کو کئی دن لگے اس دوران میٹرو بس کی بھی بس ہوگئی۔ مسافر بھی خوار ہوتے رہے اور عام شہریوں کو تو جو دن دیکھنا پڑے وہ اب اس کے مجبوراً عادی ہوتے جا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ حالات دھرنے تک کیوں پہنچنے دئیے جاتے ہیں۔جب لیڈی ہیلتھ ورکروں کے مطالبات جائز تھے اور ان کو مان لیا گیا ہے تو پہلے کیوں نہ مانا گیا۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ مطالبات کی بنیاد ہمیشہ مالیاتی ہوتی ہے۔ خرچے کا چکر ہوتا ہے یہ خرچہ کسی کی ذاتی جیب سے نہیں ہوتا پھر ’’بعد از خرابی بسیار‘‘ والی بات کیوں پسند کی جاتی ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکروں کا معاملہ ہیلتھ کے شعبہ سے ہے۔ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کا جیل روڈ سے ملحقہ سیکرٹریٹ ان دنوں سیکرٹری ہیلتھ علی جان خان کی سربراہی میں انتہائی چابکدستی سے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے شفاف طریقے سے کام کر رہا ہے۔ سیکشن آفیسر سے ڈپٹی سیکرٹری اور ایڈیشنل سیکرٹری تک تمام افسران صوبہ بھر کے ان گنت ڈاکٹروں اور لیڈی ڈاکٹروں سے لے کر نرسوں اور معاون طبی عملہ کے معاملات کو میرٹ پر فوری نمٹانے کی شہرت رکھتے ہیں تو پھر لیڈی ہیلتھ ورکروں کو دھرنا دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ یقیناً یہ انتظامی سے زیادہ پالیسی معاملہ ہے جس کے فیصلے کا دار و مدار افسران بالا تر یعنی وزارتی سطح پر ہونا ہوتا ہے اور یا پھر شعبہ صحت سے باہر یعنی شعبہ خزانہ کی طرف سے کوئی رکاوٹ بیچ میں در آتی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب اگر مسلم لیگ ن کی صدارت کی نئی ذمہ داریوں سے کچھ وقت بچا سکیں تو اس بات پر خصوصی توجہ دیں کہ اب صوبے کے مختلف شعبوں کے کارکنوں کے مسائل دھرنے سے پہلے حل ہوں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر بات کودھرنوں کی بدنامی کے بعد تسلیم کیا جائے اور وہ تو ویسے بھی دھرنوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ اب کسی نئے دھرنے کا انتظار نہیں کیا جانا چاہئے۔