اُچھالی جا رہی ہیں کیوں سیاسی پگڑیاں سب

پاکستان میں قومی انتخاب کے دن جوں جوں قریب آ رہے ہیں تمام سیاسی جماعتوں کے پیٹ میں انتخابی مروڑ پڑنے لگ گئے ہیں۔ ان انتخابی مروڑوں کے نتیجے میں دو تین نئی سیاسی جماعتوں نے بھی جنم لے لیا ہے۔ ایک سیاسی جماعت صوبہ بلوچستان میں ’’پیدا‘‘ کر دی گئی ہے۔ صوبہ سندھ میں ایم کیو ایم تین چار مختلف جماعتوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں نے بھی ایم ایم اے کے پرچم تلے اتحاد بنا لیا ہے اور ایم ایم اے کی صدارتی لاٹری مولانا فضل الرحمن کے نام نکل آئی ہے۔ ایم ایم اے کا صدر بننے کے بعد مولانا فضل الرحمن نے اپنی سیاسی کامیابی کیلئے کراچی میں پڑاؤ ڈال لیا ہے۔ ان کی چالاک عقابی نگاہیں صوبہ سندھ کے ووٹ بنک پر مرکوز ہو چکی ہیں۔ سندھ کی ایک اور سیاسی جماعت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے بارے میں یہ حیرت انگیز انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ وہ خفیہ طور پر سیاسی روابط کو فروغ دے رہی ہے۔ اس جماعت نے پورے صوبہ سندھ کے ٹکٹ ہولڈرز سے خفیہ رابطے بحال کر لئے ہیں جن میں پیپلزپارٹی کے 32 ٹکٹ ہولڈر بھی شامل ہیں۔ عمران خان نے بھی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر صوبہ سندھ سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے ایک تقریر میں یہ دھماکہ خیز بڑھک بھی لگائی ہے کہ پنجاب میں شریف برادران اور سندھ میں آصف علی زرداری سب سے بڑے ڈاکوہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے اپنے دورِ حکومت میں ان دونوں خاندانوں نے قومی خزانے کی زبردست لوٹ مار کی ہے۔ اسکے بعد عمران خان نے موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اعلان کیا کہ شاہد خاقان عباسی کا شمار بھی بڑے ڈاکوؤں میں کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد عمران خان نے شہباز شریف پر تنقید کے تیر چلاتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف سے بڑا سیاسی ڈرامہ باز اس ملک میں اور کوئی نہیں ہے۔ عمران خان کی زرداری کے بارے میں کی ہوئی تقریر کا بھرپور جواب دیتے ہوئے زرداری صاحب کے فرزندِ ارجمند بلاول بھٹو زرداری نے یہ زبردست اعلان کیا کہ اگر جھوٹوں کے سر پر تاج سجائے جائیں تو جھوٹ کا سب سے بڑا تاج عمران خان کو پہنایا جائے گا۔ بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ مولانا فضل الرحمن کی فاٹا والوں سے سیاسی دشمنی ہے اسی لئے وہ فاٹا کی صوبہ خیبر پختونخواہ میں شمولیت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ عمران خان کے شہباز شریف مخالف بیان پر وزیراعلیٰ پنجاب نے ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے ایک اخباری بیان میں الزام لگایا کہ عمران خان نے سیاست میں جھوٹ اور بہتان تراشی کے منفی کلچر کو پروان چڑھایا ہے جبکہ ہم نے سیاست کو عوام کی خدمت کا ذریعہ بنایا ہے اور عوامی خدمت کے سامنے جھوٹ اور بے بنیاد الزامات کی کوئی حیثیت نہیں۔ عمران خان نے ہر موقع پر جھوٹ کا رنگین سہارا لیکر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جوابی حملہ کرتے ہوئے عمران خان نے ایک تقریر میں کہا کہ پورا شریف خاندان جھوٹ بولنے کا عادی ہے شریف خادان اور اسحاق ڈار نے اربوں روپے کے اشتہارات میں جتنے جھوٹ بولے، ان سب کا بھانڈا عوامی چوکوں میں پھوٹ چکا ہے۔ ان لوگوں نے پاکستانی معیشت کو تباہ کرنے کیلئے اکنامک ہٹ مین کا کردار ادا کیا ہے اور پاکستان کو بین الاقوامی قرضہ جات کی بدترین دلدل میں جکڑ دیا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے رہنما اسفند یار ولی نے بھی تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمن پر تنقید کے تیر چلاتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ فاٹا کے تمام مسائل کا حل خیبر پی کے میں انضمام سے وابستہ ہے۔ ایم ایم اے کی بحالی دینِ اسلام کیلئے بلکہ اسلام آباد کیلئے ہے۔ ہم صوبہ خیبر پی کے میں فاٹا کے انضمام کے مطالبے سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اسفند یار ولی کا یہ اعلان فاٹا کے عوام کیلئے خوشخبری کی حیثیت رکھتا ہے لہٰذا فاٹا کے ووٹر آئندہ انتخابات میں اسفند یار ولی کی سیاسی جماعت کو ووٹ دینے کیلئے ترجیح دینگے۔ اسفند یار ولی نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میں آصف زرداری کو ایک کریڈٹ ضرور دوں گا کہ اُنہوں نے سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین کیلئے تحریک انصاف سے ووٹ لیکر عمران خان کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یعنی زرداری کو بدعنوان اور کالا زر کمانے کا طعنہ دینے والا شریف خاندان کی مخالفت میں زرداری کی حمایت کرنے لگا۔ چند سیاسی تجزیہ کاروں نے ٹی وی پروگراموں میں انکشاف کیا کہ پاکستان میں سیاسی طوفان کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے۔ اس کے جواب میں میجر جنرل آصف غفور نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ این آر او، عدلیہ کے معاملات اور آئینی مجوزہ ترمیم کے حوالے سے فوج بالکل غیرجانبدار ہے۔ نہ ہم نے الیکشن کا ٹائم فریم دینا ہے۔ انتخابات کے حوالے سے فوج کو جو ذمہ داری سونپی جائیگی اسے ہم مؤثر طور پر نبھائیں گے۔ شیخ رشید سیاسی درفنطنیاں چھوڑنے کے ماہروں میں شمار ہوتے ہیں۔ شیخ رشید نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب سے مطالبہ کیا کہ وہ انتخابات تک ملک میں جوڈیشل مارشل لاء لگا دیں اور اپنی نگرانی میں انتخابات کروائیں۔ شیخ رشید کی مذکورہ بالا تقریری تجویز پر چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے شیخ رشید کی تقریری تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے ایک کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ پاکستان کے آئین میں جوڈیشل مارشل لاء کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان تمام حالات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ آنیوالے قومی انتخابات میں تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی پگڑیاں اُچھال کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں گی اور ایک دوسرے کے احترام کا دامن چاک کر دیں گی۔

بہ صد حیرت مناظر دیکھتے ہیں لوگ یہ اب
اُچھالی جا رہی ہیں کیوں سیاسی پگڑیاں سب

ای پیپر دی نیشن