آئیے! غیر مسلموں سے کچھ سیکھیں

یہ 15 مارچ 2019ء کا واقعہ ہے جمعۃ المبارک کا دن تھا ۔سوشل میڈیا پر لوگوں نے دیکھا کہ ایک شخص نے گاڑی سے گن نکالی اور قریبی مسجد میں گھس گیا اور وہاں موجود نمازیوں پر اندھا دھند فائرنگ کرتا گیا۔ نماز جمعہ کیلئے آنیوالے نمازی سر بسجود ہوتے گئے اور لہولہان جسموں سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہوئے شہادت کے رتبے پر فائز ہوتے گئے۔ 50مسلمان نمازی جن میں 9 پاکستانی بھی تھے شہید ہو گئے۔ یہ ایک افسوسناک واقعہ تھا لیکن ایسے بہت سے واقعات اسلامی ممالک میں ہوئے تھے۔ مساجد، امام بارگاہیں، غیر مسلموں کی عبادت گاہیں دہشت گردی کا نشانہ بنی تھیں۔ حکمرانوں، سیاسی رہنماؤں کے مذمتی بیان جاری ہوئے۔ افسوس کا اظہار کیا گیا اور چند دن بعد لوگ ان واقعات کو بھول گئے۔ البتہ جن کے گھر اُجڑے، عزیز جدا ہو گئے انکے گھروں میں تو مستقل روگ اور سوگ کی کیفیت رہے گی۔ ہمارے ہاں اگر کسی مکتبہ فکر کی عبادت گاہ پر حملہ ہوا تو شاید ہی دوسرے مکتبہ فکر کے رہنماؤں نے مذمت یا افسوس کا اظہار کیا ہو۔ عملی مدد کرنا تو دور کی بات ہے۔ جو واقعہ نیوزی لینڈ میں پیش آیا۔ دہشت گرد نے سوشل میڈیا پر لائیو فوٹیج چلائی جسے دیکھ کر لوگ پہلے سمجھے کہ یہ کوئی فلمی یا ویڈیو گیم کا منظر ہے۔ لیکن جب حقیقت کا پتہ چلا تو پورا نیوزی لینڈ سکتے میں آ گیا۔ نیوزی لینڈ مسلمانوں کا ملک نہیں ہے لیکن اس واقعے کے بعد پتہ چلا کہ یہ انسانوں کا ملک ہے۔ اسکے حکمرانوں، سیاستدانوں اور شہریوں میں انسانیت کی شمع فروزاں ہے۔ انکے دل انسانی ہمدردی سے لبریز ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں سے ایسا اظہار یکجہتی کیا کہ خود مسلمانوں کو بھی شرما دیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے یہ سانحہ انکے بہت قریبی عزیزوں کے ساتھ پیش آیا ہے۔ اس سانحے کے بعد نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ اور عوام ہی نہیں وہاں کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن انسانی ہمدردی اور رواداری کی مثال بن کر ابھری ہیں۔ انہوں نے سیاہ ماتمی لباس پہنا، سر پر سکارف اوڑھا، مسلمانوں سے معافی مانگی۔ وہ اپنی تقریروں کے دوران کئی بار آبدیدہ ہوئیں۔ وہ جس محبت سے شہید ہونے والوں کی رشتہ دار خواتین کے گلے لگ کر انہیں دلاسہ دے رہی تھیں اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ انکی دل میں شہید ہونے والوں کا دکھ عزیزوں رشتہ داروں سے کم نہیں ہے۔ اگلے جمعۃ المبارک کو ایک عظیم اجتماع ہوا۔ اس اجتماع میں مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی کثیر تعداد میں شریک تھے۔ اخبارات نے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیلئے صفحۂ اوّل پر ’’سلام‘‘ شائع کیا۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے اپنے خطاب میں حدیث مبارکہ پڑھی۔ پارلیمنٹ کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن حکیم سے کیا گیا۔ نیوزی لینڈ کے غیر مسلم شہری مسجدوں کے باہر نمازوں کے اوقات کے دوران حصار بن کر کھڑے ہو گئے کہ اگر کوئی حملہ کرے تو وہ سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ لوگ کھانااور پھول لے کر آئے۔ شہداء کی نماز جنازہ میں غیر مسلموں کی کثیر تعداد بھی موجود تھی۔ اس اجتماع میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کو سوشل میڈیا پر قتل کی دھمکیاں دی گئیں لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ دہشت گرد کی بہن نے نے کہا کہ میرا بھائی عبرت ناک سزائے موت کا مستحق ہے۔ وزیراعظم نیوزی لینڈ جیسنڈا آرڈرن نے دنیا بھر کے مسلمانوں اور انسانی ہمدردی رکھنے والوں کے دل جیت لیے ہیں۔ لیکن کیا موجودہ دور میں ہمارے کسی رہنما کی ایسی مثال پیش کی جا سکتی ہے؟ جواب نفی اور ندامت ہی میں آئے گا۔اس افسوس ناک سانحے کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیراعظم، پارلیمنٹ اور عوام کے قابل ستائش طرزِ عمل سے مجھے لگتا ہے کہ مسلمانوں سے ہمدردی ،باوجود اس کے کہ یہ حسنِ عمل غیر مسلموں کی طرف سے سامنے آیا ہے غیر مسلموں کے دلوں میں اسلام کی شمعیں جلائے گا اور اسلام کے فروغ کا باعث بنے گا۔ بہت ممکن ہے کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم بھی کبھی اسلام قبول کر لیں کیونکہ وہ انسانیت کے جس جذبے سے سرشار ہیں وہ کسی باعمل مسلمان کا خاصہ ہیں۔22 مارچ کو جب جمعۃ المبارک کے اجتماع میں سارا نیوزی لینڈ گزشتہ جمعہ کو شہید ہونے والے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کر رہا تھا۔ اسی روز کراچی میں ایک معروف عالم دین پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ خود تو بچ گئے لیکن گارڈ سمیت دو افراد جاں بحق ہوگئے۔ میں نے ٹی وی چینلز کی نشریات اور اگلے روز کے اخبارات دیکھے صرف مخصوص مکتبہ فکر کے چند علماء نے واقعہ کی مذمت اور افسوس کا اظہار کیا۔ کاش ہم بھی غیر مسلموں سے کچھ سیکھ لیں۔ خلوص، محبت، ایثار و قربانی، رواداری، بھائی چارہ انسانیت کی خدمت، اسلام کی تعلیمات ہیں لیکن ہم ان سے تہی دامن ہوگئے اور غیر مسلموں نے ان کو اپنا لیا۔ تو پھر اگر ہم دنیا میں رسوا ہو رہے ہیں تو شکوہ کیوں؟جب 9 پاکستانیوں سمیت 50 مسلمانوں کی شہادت پر پورا نیوزی لینڈ سوگ میں ڈوبا ہوا تھا تو ہم کراچی میں پی ایس ایل کا جشن منا رہے تھے۔ گانے گائے جا رہے تھے۔ اچھل کود اور آتش بازی ہو رہی تھی۔ میچ دیکھنے وہ اعلیٰ شخصیات بھی گئیں جنہیں نہیں جانا چاہیے تھا۔ انہیں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا کردار سامنے رکھنا چاہیے تھا اور اس سے کچھ سیکھنا چاہیے تھا۔ ہم نے قومی پرچم سرنگوں بھی پی ایس ایل کے فائنل کے بعد کیے تاکہ پی ایس ایل پر اس سانحے کے اثرات نہ پڑیں۔ ہم دنیا کو اپنی ’’روشن خیالی‘‘ کا قائل کرنا چاہتے ہیں۔ روشن خیالی کی کوئی مثال قائم کرنی ہے تو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی طرح کریں کہ پوری دنیا انہیں ستائش کی نظروں سے دیکھ رہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن