لڑکیوں نے شادی کیلئے مذہب تبدیل کیاجبکہ لبرلز کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کا مذہب جبراً بدلا گیا ہے اور شادی بھی جبراًکروائی گئی ہے۔مگر اب تک خبروں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ لڑکیوں نے خود اسلام قبول کیا ہے۔ جعلی لبرلز سے ہمارا یہ سوال ہے کہ اگر لڑکیوں نے شادی کیلئے ہندو مذہب سے آزادی حاصل کی ہے تو آزادی کا یہ چہرہ آخر تمہیں کیوں نہیں پسند ہے؟آزادی کے اصول اور دائرے کے تحت تو کسی کو اس شادی پر اعتراض ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ لڑکیاں اسلام کے حسن سے متاثر ہوئی ہیں یا مسلم لڑکے کے حسن سے متاثر ہوئیں ہیں؟ یا و ہ اسلام سے عشق رکھتی ہیں۔ یا صرف مسلم لڑکوں سے عشق رکھتی ہیں؟ دونوں کا حال اللہ جانتا ہے اس لئے لبرلز کے احمقانہ، جاہلانہ اعتراضات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
لبرل ازم اور میڈیا کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ لڑکیاں اپنی اجتماعیت -مذہب -گھر اور خاندان سے نکلی تو ہیں لیکن آزادی کیلئے نہیں۔یہ لڑکیاں مذہب کیلئے ‘مذہب کے نام پر نکلی ہیں۔اور لبرلز کو یہ چہرہ بالکل بھی پسند نہیں ہے۔ وہ ایک اجتماعیت سے نکل کر دوسری اجتماعیت میں چلی گئی ہیں۔لہذا انکی آزادی کی حمایت میڈیا کیسے کرسکتا ہے؟ پچھلی اجتماعیت کا تعلق اقلیت سے تھا۔لہذا ان کو اچانک اقلیتوں کے حقوق یاد آگئے یہاں انہوں نے آزادی اور مساوات کا اصول بھی بھلا دیا۔
لڑکیاں اقلیت سے جس اجتماعیت میں گئی ہیں وہ اسلام ہے جو آفاقی- لافانی -ایمانی روحانی-لازوال اور زندہ حقیت ہے۔اورلبرل ازم اسلام کے لیے کسی کو آزادی نہیں دے سکتا۔ا یہ پہلی مرتبہ کسی اجتماعیت -کسی خاندان اور ماں باپ کے ساتھ کھڑا ہے۔ورنہ ہمیشہ یہ فرد کی آزادی۔آوارگی کے لیے ہر اجتماعیت کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔
عمران خان نے لڑکیوں کے تبدیلی مذہب اور شادی کے مسئلے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے لیکن انہوں نے گھر سے بھاگ کر جانے والی8000 لڑکیوں کے معاشقوں کی حقیقت جاننے کے لیے کوئی حکم جاری نہیں کیا اس لیے کہ گھر سے بھاگنا لڑکی کی آزادی ہے۔عمران خان کی ریاست میں یہ آزادی ہر ایک کو حاصل ہے۔بس ہندو لڑکی مسلمان سے شادی نہیں کرسکتی اس عمل کی آزادی نہیں ہے۔
درگاہ بھر چونڈی شریف اور اسکے متولی میاں عبدالحق عرف میاں مٹھو پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں وہ اسلام آباد میں موجود ہیں درگاہ بھرچونڈی شریف سندھ کی معروف درگاہ ہے اور پچھلی ایک ڈیڑھ صدی سے اس کی شہرت یہی ہے کہ وہاں غیر مسلم جا کر قبول اسلام کرتے ہیں۔ درگاہ کے مشہور بزرگ سندھ میں حافظ الملت کے نام سے مشہور ہیں، انکے خلفا میں کئی نامور علما اور بزرگوں کے نام آتے ہیں، مولانا عبیداللہ سندھی نے بھی انکے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ تحریک ریشمی رومال شروع کرنیوالے اکابر کا تعلق بھی اسی حلقے سے رہا۔درگاہ بھرچونڈی شریف والے روایتی طور پر نومسلموں کی بھرپور مدد کرتے ، انکی جان ومال کے تحفظ کے ساتھ انہیں مالی مدد بھی بہم پہنچاتے ہیں کہ سندھ کے اس علاقے میں ایک ہندو کے مسلمان ہونے کا مطلب پوری کمیونٹی سے کٹ جانا ہے، مدد کے بغیر پھر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ میاں عبدالحق عرف میاں مٹھو آج کل پی ٹی آئی کا حصہ ہیں۔ میاں مٹھو کا ہندوئو ں کے قبول اسلام کے معاملے میں متحرک ہونا قابل فہم ہے۔ ان کا خاندان اسے اپنی ذمہ داری تصور کرتا ہے۔ ان نومسلموں کو عدالتی کیس کیلئے وکیل کا انتظام بھی یہی لوگ کرتے ہیں۔ یہ صرف ایک سندھی وڈیرے پیر کا معاملہ نہیں بلکہ اس کی پوری تاریخ اور روایت ہے۔ اس بار ویسے ان لڑکیوں نے میاں مٹھو کے بجائے درگاہ کے سجادہ نشیں میاں عبدالخالق کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ یاد رہے کہ بھرچونڈی شریف والے مسلمان کرنے سے پہلے اپنی سی پوری تحقیق کرتے ہیں، برتھ سرٹیفکیٹ کی چھان بین کی جاتی ہے، خود اور اپنے گھر کی عورتوں کے ذریعے آنے والی ہندو لڑکیوں کا انٹرویو بھی کیا جاتا ہے۔ انہیں اندازہ ہے کہ اگر کوئی غلطی ہوگئی یا سکینڈل بنا تو نہ صرف درگاہ کی ساکھ متاثر ہوگی، بلکہ سیاسی اعتبار سے بھی یہ گھاٹے کا سودا ہے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ صرف نوخیز لڑکیاں ہی اسلام کیوں قبول کرتی ہیں ، ہندو مرد ، بزرگ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے بے شمار واقعات ہوتے رہتے ہیں جن میں ہندو مردوں نے اسلام قبول کیا، بعض اوقات توکسی مرد نے اپنی بیٹیوں، بہنوں سمیت اسلام قبول کیا مگر وہ میڈیا کے لئے خبر نہیں۔ ایک سطر کی خبر بھی شائع نہیں ہوتی۔ ہندو لڑکی کا مسلمان ہونا البتہ فوری خبر بن جاتا ہے۔ خاص کر جب وہ اپنے گھر کو چھوڑ کر آئی ہو۔
سرشام جہالت پھیلانے والے اینکر ان سے رابطہ کیوں نہیں کرتے وہ لڑکیاں موجود ہیں ان کو کیوں نہیں دکھاتے کہ ان کا ایجنڈہ ڈالروں پر رقص کرنا ہے اور وہ رقص مرگ جاری ہے اصل حقائق یہ ہیں کہ غریب اور ہاری ہندو، کولھی بھیل وغیرہ ۔ میں انفرادی طور پر قبول اسلام کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔یہ خاندان کی شکل میں ہی مسلمان ہوتے ہیں۔ غریب ہندو صرف مسلمان ہی نہیں ہو رہے بلکہ عیسائی، قادیانی بھی بن رہے ہیں۔جب کہ بہت سے کراچی میں آکر سکھ بھی بن گئے ہیں لیکن اس پر کوئی دہائی نہیں دیتا کئی ایسے واقعات بھی ہوئے جن میں مسلمان لڑکی ہندو لڑکے پر دل ہار بیٹھی۔ڈیڑھ ماہ قبل جھڈو شہر سے مسلمان لڑکی ہندو لڑکے کے ساتھ نکل گئی تھی۔تاہم ایسے واقعات شاذ ونادر ہوتے ہیں۔شاید اس کی وجہ اکثریت کا دبائو ہو۔ (ختم شد)