ٹیکسلا (نوائے وقت رپورٹ)سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ صوبائی اسمبلی کا حلف اٹھانے کا مطلب ہو گا کہ آپ نے انتخابی نتائج تسلیم کر لیے ہیں۔ ٹیکسلا میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ بطور ایک سیاستدان مستقبل کا فیصلہ کروں گا، 35 سال ایک جماعت کے ساتھ کھڑا رہا، پھر اس پارٹی کی لیڈر شپ سے علیحدہ ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ حلقے کے عوام نے مجھے پر اعتماد کیا ہے، لیکن موجودہ صورتحال میں سیاسی کشمکش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتیں جو بھی آتی ہیں قرض لیتی رہتی رہی ہیں، لیکن موجودہ حکومت نے قرض لینے کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں، قرضوں کا گرداب ہے ملک کی معیشت قرضوں پر چل رہی ہے۔سابق وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا معاملہ عدالتوں میں ہے اس پر بات نہیں کروں گا۔انہوں نے کہا کہ بھارت کے حوالے سے موجودہ حکومت کا کوئی موقف نظر نہیں آتا، بھارت اور مودی کے حوالے سے نواز شریف اور عمران خان کا ایک ہی مؤقف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو کون سمجھائے کہ حکومتیں ٹوئٹر پر نہیں چلتیں، حیران ہوں عمران خان کو اتنی جلدی کیسے پتہ چل گیا کہ تیل اور گیس کا کوئی خزانہ ملنے والا ہے۔سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان اس وقت انتہائی گھمبیر مسائل میں ہے، ملک کو قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو لال بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ انہوں نے کہا نوازشریف کے کیسز عدالت میں ہیں، اس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا فیصلہ بہت پہلے سے مل رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حیران ہوں عمران خان کو اتنی جلدی کیسے پتہ چل گیا کہ تیل اور گیس کا کوئی خزانہ ملنے والا ہے۔ سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور نواز شریف کی بھارتی پالیسی میں کوئی فرق نہیں، امن کے لیے روز بھیک مانگنا غیرت مند قوم کے لیے مناسب نہیں ہے۔ خدا کے لیے کوئی عمران خان کو سمجھائے حکومتیں ٹویٹ پر نہیں چلتیں۔ انہیں نریندر مودی کی مبارکباد کا ذکر ٹویٹ میں نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وزیراعظم کو بھارت کے حوالے سے فیصلے سوچ سمجھ کر کرنے چاہیں جبکہ افغانستان ایشوز پر بھی ڈبیٹ ہونی چاہیے۔انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ احتساب کے حوالے سے اپوزیشن کی جائز شکایات کو دور کرتے ہوئے احتساب کے نظام کو شفاف بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ جب کوئی گرفتار ہوتا ہے تو حکومت کہتی ہے نہیں چھوڑیں گے، ایسا لگتا ہے کہ گرفتاری نیب کے بجائے حکومت کرا رہی ہے۔ احتساب کے خلاف نہیں مگر شفافیت چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قومی مسائل پر بات نہیں ہوگی، مسائل کا حل نہیں نکلے گا۔ بھارت کے معاملے پر حکومت مشاورت کرے، پارلیمنٹ میں بحث کرانی چاہیے اگر اپوزیشن سخت زبان استعمال کرے تو حکومت کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتیں ٹویٹ سے نہیں چلتیں۔