اشیائے ضرورت کی قلت کا خدشہ۔ لاک ڈائون سے گریز کے بجائے‘ قانون کی گرفت مضبوط بنائیں

Apr 01, 2020

کرونا وائرس سے دنیا بھر میں بڑھتی انسانی ہلاکتیں اور وزیراعظم عمران خان کی مکمل لاک ڈائون سے پھر معذرت
وزیراعظم عمران خان نے کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے ’’پرائم منسٹر کرونا ریلیف فنڈ‘‘ قائم کر دیا ہے۔ اس کا اکائونٹ نیشنل بنک میں کھولا جائیگا جو یکم اپریل سے اپریشنل ہو جائیگا۔ اس میں لوگ اندرون اور بیرون ملک سے عطیات جمع کرا سکتے ہیں۔ اس فنڈ میں عطیات جمع کرانے والوں سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں ہوگی جبکہ عطیات دینے والوں کو ٹیکس میں بھی چھوٹ دی جائیگی۔ گزشتہ روز سرکاری اور نجی الیکٹرانک میڈیا پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے پاس ایمان اور نوجوانوں کی طاقت ہے اور ہمارے پاس کرونا سے لڑنے کیلئے یہی دو طاقتیں ہیں۔ وزیراعظم ہائوس میں نگرانی کی جارہی ہے‘ ہم ایک ہفتے میں بتائیں گے کہ کرونا وائرس کہاں جارہا ہے۔ انہوں نے کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے مکمل لاک ڈائون سے پھر معذرت کرلی اور کہا کہ اگر ہم لاک ڈائون کرتے ہیں اور ان لوگوں کا دھیان نہیں رکھ سکتے جو بے روزگار ہو کر گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں اور جن کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہیں ہوتا تو اس طرح کوئی لاک ڈائون کامیاب نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہمسائے بھارت نے لاک ڈائون کیا جس کے بعد بھارتی وزیراعظم مودی کو یہ کہہ کر قوم سے معافی مانگنی پڑی کہ ہم نے بغیر سوچے سمجھے لاک ڈائون کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کرونا سے نمٹنے کی جنگ حکمت عملی سے لڑنی ہے اور اپنے ملک کے حالات دیکھنے ہیں۔ انکے بقول ٹائیگر فورس کے ساتھ مل کر وہ کمی پوری کی جائیگی جو وسائل کی کمی کے باعث ہم پوری نہیں کرسکتے۔ ہمیں اس لاک ڈائون کی طرف نہیں جانا چاہیے کہ ٹرانسپورٹ بند ہو جائے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہزاروں انسانی ہلاکتوں کا باعث بننے والا کرونا وائرس ہی آج ہماری بقاء کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے جس کا پوری دنیا کو سامنا ہے۔ اس وائرس کی زد میں آنیوالے دنیا کے دو سو سے زائد ممالک اپنے عوام کو کرونا وائرس سے بچانے کیلئے تمام ممکنہ ذرائع بروئے کار لارہے ہیں جن میں احتیاطی اقدامات مقدم ہیں جبکہ ان احتیاطی اقدامات میں مکمل لاک ڈائون کو ضروری گردانتے ہوئے وسائل سے مالامال اور ترقی یافتہ مغربی یورپی ممالک بھی مکمل لاک ڈائون اور کرفیو لگانے پر مجبور ہوچکے ہیں کیونکہ کرونا وائرس کا پھیلائو روکنے کیلئے انسانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ منقطع کرنا ہی ضروری گردانا گیا ہے جو کرفیو کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی تناظر میں آج جہاں امریکہ‘ برطانیہ‘ سپین‘ اٹلی لاک ڈائون کے آخری مراحل تک جانے پر مجبور ہوئے ہیں وہیں جنوبی ایشیائی‘ وسطی ایشیائی اور خلیجی ممالک بشمول سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ روس‘ بھارت‘ انڈونیشیا اور بنگلہ دیش تک نے حفظ مقدم کے اقدامات میں مکمل لاک ڈائون پر ہی تکیہ کیا ہے۔
اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا اپنا نکتہ نظر ہے جو ملک کے حالات کے تناظر میں اپنی جگہ درست ہے کیونکہ ہمارے پاس اتنے معاشی اور مالی وسائل موجود ہی نہیں کہ مکمل لاک ڈائون کے باعث بے روزگار ہونیوالے ملک کے متوسط اور غریب طبقات اور اسی طرح وسائل نہ رکھنے والے دوسرے طبقات کی کفالت کی جاسکے۔ اس بنیاد پر وزیراعظم عمران خان کا یہ تجزیہ بادی النظر میں درست ہے کہ لاک ڈائون نہ ہونے کے باعث جتنے لوگوں کے کرونا وائرس سے مرنے کا خدشہ ہے‘ اس سے زیادہ لوگ لاک ڈائون ہونے سے فاقہ کشی کے باعث مر سکتے ہیں۔ یقیناً بھارت کو بھی اقتصادی اور مالی معاملات میں ایسے ہی حالات کا سامنا ہے تاہم بھارتی وزیراعظم مودی نے کرونا وائرس سے عوام کی زندگیاں بچانے کیلئے مکمل لاک ڈائون کا راستہ اختیار کیا جس کے نتیجہ میں بیروزگاری پھیلنے اور دوسرے عوامی مسائل پیدا ہونے پر انہیں قوم سے معذرت کرنا پڑی۔ اسکے باوجود انہوں نے مکمل لاک ڈائون کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اس تناظر میں تو ہمیں بھی مکمل لاک ڈائون کی طرف جانے کی ہی ضرورت ہے جس کے مختلف طبقات زندگی کے لوگ متقاضی بھی ہیں اور آئین کی دفعہ 245 کے تحت سول فرائض ادا کرنیوالی افواج پاکستان نے بھی اسی بنیاد پر تمام صوبوں بشمول پنجاب میں لاک ڈائون مؤثر بنانے کے اقدامات اٹھائے ہیں چنانچہ وزیراعظم عمران خان مکمل لاک ڈائون کے حوالے سے بیروزگاری اور بھوک بڑھنے کے جس خدشہ کا اظہار و اعادہ کررہے ہیں‘ یہ مسائل تو اب بھی پیدا ہوچکے ہیں کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ اور لوگوں کے دوسرے کاروبار عملاً بند ہونے سے بالخصوص دیہاڑی دار مزدور طبقہ بیروزگار ہو کر فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکا ہے۔ اس صورتحال میں اصل کرنے کا کام لاک ڈائون کے دوران لوگوں کو انکے گھروں تک اشیائے خوردونوش اور ادویات کی فراہمی یقینی بنانے کا ہے۔ اس کیلئے حکومت اپنے وسائل سے جو ممکنہ اقدامات اٹھا سکتی ہے‘ وہ اٹھائے بھی جارہے ہیں جبکہ ملک کے مخیر حضرات اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنے اپنے پلیٹ فارم پر مستحق لوگوں تک اشیائے ضروریہ پہنچانے کیلئے سرگرم ہیں۔ اب وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ’’کرونا ریلیف فنڈ‘‘ قائم کیا گیا ہے تو ایثار و قربانی کے جذبے سے لبریز متمول طبقات یقیناً اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے جس کیلئے انہیں وزیراعظم کی جانب سے ٹیکس میں چھوٹ اور انکی آمدنی کے بارے میں کسی قسم کا سوال جواب نہ کرنے کی رعایت بھی دے دی گئی ہے اس لئے ہمیں لاک ڈائون کے دوران مستحقین اور ملک کے غریب طبقات کو بھوک سے بچانے کے عملی اقدامات میں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا۔ صرف عطیات کو بروئے کار لانے کا ایک متحرک و منظم سسٹم قائم کرنا پڑیگا۔ اس کیلئے وزیراعظم نے ٹائیگر فورس بھی تشکیل دی ہے۔ اب صرف ’’حق بحقدار رسید‘‘ کی فضا مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔
اگر آج پوری دنیا کرونا وائرس سے بے بس ہو کر مکمل لاک ڈائون کی طرف جاچکی ہے اور امریکی صدر ٹرمپ اس وائرس سے ممکنہ دو لاکھ تک انسانوں کی ہلاکت کے بعد بھی اس پر قابو پالینا اپنی کامیابی سے تعبیر کررہے ہیں تو اس سے کرونا وائرس کی سنگینی اور اسکے مضمرات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان قوم پر اعتبار اور اعتماد کریں اور کرونا وائرس کا سدباب مکمل لاک ڈائون سے ہی ممکن ہے تو اس میں کسی پس و پیش سے کام لینے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ بس ملک میں روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قلت نہ ہونے دی جائے جس کیلئے لاک ڈائون سے گریز کی نہیں‘ قانون کی گرفت مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں