پانڈی

جناب ایف ۔ اے پاس ہوں‘ کبڈی کا اچھا پلیئر تھا‘ پولیس میں نوکری مل گئی ، جو کسی وجہ سے جاتی رہی۔ اب لاہور کی اکبری منڈی میں کام کرتا ہوں۔ ہمارے شیخ صاحب نوائے وقت کے رسیا ہیں اور مجھے بھی اخبار بینی کی لت ہے۔ سو فراغت میں شوق پورا کر لیتا ہوں۔ کرونا پر آپکے سب کالم پڑھے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ کہ صابن سے ہاتھ دھونا دن بھر میں ایک بار بھی بمشکل نصیب ہوتا ہے ، بار بار کیسے دھوئوں؟ رہا پرہجوم جگہوں سے بچنے کا معاملہ، تو میرے تو حالاتِ کار ہی کچھ ایسے ہیں کہ دن بھر بوریاں ڈھوتا ہوں اور کمر پر بوجھ اٹھائے بس ایک ہی جملہ زبان پر ہوتا ہے۔ ’’بھاجی ! ذرا پاسے، بھاجی ! تھوڑا رستہ‘‘ مجھ جیسے لاکھوں دیہاڑی داروں کو تو بس اللہ ہی کا آسرا ہے۔ جو سب دینوی آسروں پر بھاری ’’اَلکاسِبُ حبیب اللہ‘‘ پر ہمارا ایمان‘ یقیناً اللہ اپنے دوستوں کا بال بیکا نہیں ہونے دے گا۔
٭…٭…٭

ریاض احمد سید…… سفارت نامہ

ای پیپر دی نیشن