جنوبی پنجاب صوبہ سیاستدانوں نہیں عوام کے حق میں،کاریگروںکو نیا نعرہ مل گیا

Apr 01, 2021

لاہور (تجزیہ :رفیق سلطان) جنوبی پنجاب سب سیکرٹریٹ کے جملہ اختیارات مکمل طور پر لاہور شفٹ ہونا اور یہاں بیٹھے افسروں کی حیثیت محض ربڑ سٹمپ ہو جانا ایک ایسا فیصلہ ہے جو کسی طور پربھی جنوبی پنجاب کے چند بڑوں کو اعتماد لئے بغیر ممکن نہ تھا۔ قبل ازیں جنوبی پنجاب کے یہی چند بڑے نام تھے جنہوں نے جان بوجھ کر سب سیکرٹریٹ کے تنازعے پر ملتان اور بہاولپور کے سیاستدانوں اور عوام کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا اور ایسا فیصلہ سامنے آیا کہ ایڈیشنل آئی جی اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری تین تین دن کیلئے ملتان اور بہاول پور میں بیٹھیںگے لیکن اس پر بھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔ گورنر پنجاب نے جو نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اس کی بازگشت تین ماہ سے سنائی دے رہی تھی اور اندرون خانہ جنوبی پنجاب کے تمام بڑے سیاستدانوں سے رائے لئے جانے کی بازگشت سنائی دیتی تھی۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی پنجاب علیحدہ صوبہ یہاں کی عوام کے مفاد میں تو ہے  مگر سیاستدانوں کے مفاد میں نہیں۔ اس وقت جنوبی پنجاب کے جملہ سیاستدان اپنی تمام تر نااہلی کوتاہی اور کاہلی کا الزام لاہور کے کھاتے میں ڈال کر لاہور کو گالی دے کر اس خطے کی عوام کو محکوم اور محروم رکھ کر 50 سال سے اپنی سیاسی دکانداری چلا رہے تھے اور خطے کے سیاستدان اسی وجہ سے پیری فقیری کی طرح نسل در نسل اپنی سیاسی  وراثت منتقل کر رہے تھے۔ جبکہ پاکستان کے کسی بھی دارالخلافہ میں نسل در نسل سیاست کا وجود تقریباً ختم ہورہا ہے۔ لاہور میں آج سے چالیس سال قبل جو ممبران پارلیمنٹ تھے ان کی اولادیں اب سیاسی منظر پر دور دور تک نظر نہیں آتیں۔ اسی قسم کی سیاسی صورت حال راولپنڈی‘ پشاور‘ کراچی اور دیگر شہروں میںہے۔ اب بیوروکریسی کی نقل و حرکت ان سیاست دانوں کی دکانداری چمکنے نہیں دے رہی‘ جس طرح جنوبی پنجاب میں وڈیروں کی دکانداری چل رہی ہے اگر جنوبی پنجاب صوبہ نہیں بنتا تو ترقی نہ ہونے کا الزام کس پر دھرا جائے گا اور الیکشن میں کیا نعرہ لگایا جائے گا۔ ڈی جی خان‘ ہیڈ تونسہ‘ چولستان‘ لودھراں‘ علی پور‘ راجن پور‘ اور لیہ میں لاکھوں سرکاری ایکڑ اراضی پر قبضے کیسے قائم رہ سکیں گے۔ ہیڈ تونسہ کے پانڈ ایریا (دریائی بیلٹ) پر جو خاندان چالیس سال سے قابض ہیں یہ قبضہ کیسے جاری رہے گا۔ پنجاب کا ہر بڑا طاقت ور سیاستدان چولستان پر قبضہ کیسے برقرار رکھے گا اور اگر ایسا کرے گا تو بھی اسے کہیں نہ کہیں حصہ دینا پڑے گا جو انہیں قبول نہیں‘ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ اس خطے کے سیاستدانوں کی اس وقت تک ضرورت تھا جب انہیں سیاسی دکانداری ڈوبتی نظر آ رہی تھی تب انہیں ووٹروں کے ذریعے اسمبلیوں میں جانے کے لئے علیحدہ صوبہ محاذ کی ضرورت تھی اور پھر اختیارات کی بھی۔ اب دو سال بعد الیکشن ہونے جا رہے ہیں تو جنوبی پنجاب کا ہر سیاستدان اپنی  سابقہ روایات پر چلتے ہوئے کچھ ڈلیور تو نہ کر سکا‘ تو پھر یہ سیاستدان جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو محدود کرنے کا الزام ایک بار پھر لاہور پر ڈال کر اگلا الیکشن جیتنا چاہیں گے۔ اب نئے نوٹیفکیشن کے تحت ایک بار پھر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے جو اختیارات سلب کر لئے گئے ہیں جس کے بعد جنوبی پنجاب سب سیکرٹریٹ عملاً مفلوج ہو گا۔ جس کا فائدہ ایک بار پھر ’’کاریگر سیاست دان‘‘ اگلے الیکشن میں اٹھائیں گے۔ لاہور اور اسلام آباد کو گالی دے کر پھر سے کامیاب ہونگے اور پھر جس پارٹی کی بھی حکومت ہو گی اسی پارٹی میں شامل ہو جائیں گے۔ کیونکہ اس خطے کے سیاستدانوں کی پارٹی ہمیشہ حکومتی پارٹی ہی رہی ہے اور یہ تاریخ کی سب سے تلخ حقیقت اب بھی یہی ہو گی۔  

مزیدخبریں