"اللہ کے نام سے کمانا"

 مولانا طارق جمیل کی گاڑی اور امر جلیل کی وڈیو پر سوشل میڈیا کی پیالی بلکہ پیالے میں اک طوفان بپا کر رکھا ہے ۔تشویش ناک بات یہ ہے کہ اکثر منطقی دلائل سے گناہ کی طرح بچ کر سیدھا فتویٰ سازی پر تلے بیٹھے ہیں۔ناز خیالوی نے لکھا اور نصرت فتح علی خان مرحوم نے محفوظ کردیا۔
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
مذہب فروشی کے حوالے سے تنقید کرنے والے ،اپنی رو میں کچھ اس طرح سے بہہ جاتے ہیں کہ گاہے وہ تنقید براہ راست مذہبی عقائد کو چیلنج کرنے لگتی ہے یہ الگ بات ہے کچھ لوگ ایسا دانستہ طور پر کرتے ہیں کہ دین فروشی کی طرح دین پر تنقید بھی ایک مفید دھندا ہے اوران افراد کا رزق،دھندہ بھی ایک طرح سے اسی ذات کے نام سے چلتا ہے جس کے وجود سے یہ انکاری ہیں۔مولانا طارق جمیل کو اللہ نے  بہت عزت دی ہے لیکن  ان کے ناقدین کی بھی ایک معقول تعداد موجود ہے جو حکمرانوں سے ان کی قربت اور ان کے طرز زندگی پر انگلی اٹھاتے آئی ہے۔انکی اہلیہ کے زیور اور گھر پر تنقید کے بعد اب گاڑی اور اس کا خصوصی مہنگا نمبر زیر بحث ہے اور اس تنقید کی آڑ میں جو منہ میں آتا ہے لکھا اور بولا جارہا ہے۔
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
ویسے تو دین اور خدا کے وجود سے انکار کچھ حلقوں میں فیشن تصور کیا جاتا ہے۔ "ان گھڑ دانشور" اور سطحی مطالعہ کی بنیاد پر تصورات قائم کرنے والے ناپختہ ذہن سوشل میڈیا کے استعمال کے دوران یہ قطعا فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ خواہ وہ اپنے آپ کو لادین کہیں یا سیکولر سمجھیں انکے پاس دوسروں کے جذبات مجروع کرنے ،عقائد کا مذاق اڑانے کا کوئی لائیسنس نہیں ہے ۔
یوں بھی اس طرح کی گفتگو کرنے والوں کو ہمیشہ اس زعم میں مبتلا دیکھا ہے کہ ان کی اخلاقیات،اہل عقائد سے کہیں برتر ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ منہ اور قلم سے جھاگ اڑاتے وقت وہ خود ایک مسند پر بیٹھکر فتویٰ جاری کرتے وقت وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہزاروں لاکھوں کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ وہ دوست جو مذہب کو اللّٰہ اور بندے کے مابین معاملہ قرار دیتے ہیں وہ بھی اپنے اس بنیادی تصور کو فراموش کرتے ہوئے اس گفتگو میں کود پڑتے ہیں۔
 مولانا طارق جمیل کے پاس وسائل ہیں اور وہ جائز بھی ہیں توان کے گھر اور گاڑی کو ان کی اسلام کے ساتھ وابستگی سے جوڑ کر ہدف بنانا جائز نہیں ۔ان کی سادگی کی تلقین اور پر تعیش طرز زندگی کو قول و فعل کا تضاد اور منافقت کے مترادف قرار دیتے ہوئے یہ بھی تو سوچئے آپکی زبان سے بہرحال کسی کا دل دکھ سکتاہے،الفاظ بدلنے سے مفہوم تو تبدیل نہیں ہوگا بس آپ دل آزاری کے گناہ سے بچ جائیں گے۔مولانا طارق جمیل انسان ہیں ،خطا کرسکتے ہیں بشری تقاضوں کے ہاتھوں مجبور بھی ہوسکتے ہیں تو کیا ان کے اور رب کے درمیان معافی کے دروازے پر میں اور آپ دربان مقرر ہیں؟
اب رہ گئے امر جلیل تو وہ پوتڑوں سے ایسے ہی ہیں ،میرا ماننا ہے کہ ہر کوئی وہی "سودا" بیچتا ہے جو اس کا بکتا ہے،اب یہ صاحب عرصہ دراز سے لوگوںکی دل آزاری کا باعث بنتے چلے آرہے ہیں،مجھے نہیں پتہ کہ انہوں نے کیا کہا ہے ؟ لیکن میرا شروع سے قاعدہ یہ رہا ہے کہ جن صاحبان کے متعلق مجھے "حسن ظن" ہو کہ ان کی گفتگو میرے نظام ہضم کے لئے موافق نہیں ہوگی تو میں ادھر سے منہ کان لپیٹ کر نکل جاتا ہوں ۔اللہ کے نام سے کمانا،اللہ کے نام پر کمانے سے بہت مختلف بات ہے لیکن یہ جلدی سمجھ میں نہیں آئے گی۔اب ملکی مسائل بہت بڑے بڑے ہیںجیسا کہ سٹیٹ بنک کی خودمختاری پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ہم ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ پاکستان کی معاشی خودمختاری ہی اصل آزادی ہے اور ہو گی  ۔بقول منیر نیازی :
یہ وہ سحر تو نہیںلیکن کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے اور بہتری کی امید پر ہو رہا ہے سٹیٹ بنک کی خودمختاری سے قرضوں کی معافی کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند ہونے کی امید ہے وگر نہ ہماری سیاسی اشرافیہ بھی اللہ کے نام پر اربوں ،کھربوں کھا چکی ہے اور ڈکار تک نہیںلیتی۔

ای پیپر دی نیشن