پی ڈی ایم کی کہانی، جو اسلام آباد سے شروع ہوئی تھی، اسلام آباد میں ہی ختم ہو گئی۔ پی ڈی ایم اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی 10سیاسی جماعتوں کا ملغوبہ ہے۔ اسے ہم ایک غیر فطری سیاسی اتحادبھی کہہ لیں تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ اسے بنانے میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ملک بھر سے تعلق رکھنے والی دیگر نو سیاسی جماعتیں بھی اس ’’اتحاد‘‘ کا حصّہ بن گئیں۔ متفقہ طور پر ایک 26نکاتی فارمولا بنایا گیا جس پر سب نے من و عن عمل کرنا تھا۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ وہی، جس کا ڈر تھا۔ پی ڈی ایم اُس وقت بکھرتی ہوئی محسوس ہوئی جب آصف علی زرداری نے ایک چال چلی ۔ پھر ا س چال کو سب دیکھتے رہ گئے۔ حکومت کو تو حیران ہونا ہی تھا۔ بڑے بڑے جغادری دانشور بھی حیران و پریشان اور ششدر دیکھے گئے۔ ’’پل بھر میں کیا سے کیا ہو گیا۔‘‘’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کا سلوگن زرداری صاحب نے ایک بار پھر سچا ثابت کر دیا۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ سیاست کا دل نہیں ہوتا، اصول نہیں ہوتے۔ اپنے مفاد ہوں تو جو بھی کر لو، جائز ہوتا ہے۔ زرداری صاحب نے ثابت کیا کہ سیاست کے میدان کے وہ ایک ایسے کھلاڑی ہیں جو کسی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ناممکن کو ’’ممکن‘‘ بنانا اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ انہوں نے ثابت بھی کیا کہ وہ سیاست میں یہ کھیل کھیلنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس ’’کھیل‘‘ کے وہ سکہ بند کھلاڑی ہیں۔ عزت مآب حاکم علی زرداری کے فرزند ارجمند آصف علی زرداری نے سیاست کی تعلیم کہاں اور کس سے حاصل کی ؟ ’’یہ زرداری جانے یا رب جانے‘‘۔ لیکن بات اب کھل گئی ہے تو کہنا پڑے گا کہ اقتدار کی کرسی پر طویل عرصہ تک براجمان رہنے والے میاں محمد نواز شریف کو بھی آصف علی زرداری کی سمجھ نہیں آ سکی۔ جماندرو سیاست دان مولانا فضل الرحمن بھی زرداری کے آگے چاروں شانے چت ہو گئے۔بات سینٹ کے الیکشن سے شروع ہوتی ہے۔ اسلام آباد والی سیٹ سے حکومتی امیدوار وزیر خزانہ حفیظ شیخ کے مدمقابل امیدوار یوسف رضا گیلانی تھے۔ جن کا تعلق اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے لیکن وہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے بھی متفقہ امیدوار تھے۔ طے پایا تھا کہ ڈپٹی چیئرمین سینٹ کی نشست کے لیے جمعیت علمائے اسلام اپنا امیدوار دے گی۔ جبکہ اپوزیشن لیڈر ن لیگ سے لیا جائے گا۔ سینٹ الیکشن ہوا تو حکومتی امیدوار حفیظ شیخ ہار گئے جبکہ اپوزیشن اتحاد کے یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوئے۔ اُن کی کامیابی میں ن لیگ کا عمل دخل اس لیے زیادہ رہا کہ سینٹ میں پیپلز پارٹی کے بعد اُن کے سینیٹرز سب سے زیادہ ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار غفور حیدری تو ڈپٹی چیئرمین منتخب نہ ہو سکے، انتخاب ہار گئے۔ اسی طرح چیئرمین سینٹ کے لئے بھی ہار یوسف رضا گیلانی کا مقدر بنی۔ اب اپوزیشن لیڈر کے لیے انتخاب کیا جانا تھا۔ اصولی طور پر ن لیگ سے اپوزیشن لیڈر کے لیے کسی کا نام جانا چاہیے تھا جو طے شدہ امر تھا۔ لیکن یوسف رضا گیلانی نے چیئرمین سینٹ کے روبرو اپوزیشن لیڈر بننے کے لیے درخو است جمع کرا دی۔ اُسی دن وہ اپوزیشن لیڈر منتخب ہو گئے، سینٹ سیکرٹریٹ نے اُن کی تقرری کا باضابطہ نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا۔ اس طرح اپوزیشن اتحاد میں رخنہ پڑتا نظر آیا۔ ایک ہلچل سی مچ گئی۔ اپوزیشن لیڈر کی سیٹ جو طے شدہ اصول کے مطابق ن لیگ کے پاس جانی چاہیے تھی، پیپلز پارٹی اُس پر براجمان ہو گئی۔ ن لیگ کے لیڈران کا اس پر سخت ردعمل آیا، اب اُن کی جانب سے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں یہ معاملہ اٹھانے کی بات کی گئی ہے۔یہ مسئلہ یا تنازع جیسے ہی میڈیا کی زینت بنا اور پی ڈی ایم میں اختلافات کی خبر سامنے آئی ، حکومتی صفوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔طے شدہ بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کا غیر متزلزل اتحاد اب ’’متزلزل‘‘ ہو گیا ہے۔ اس اتحاد کو کسی کی نظر کھا گئی یا کسی پیر یا پیرنی کی بددعا اسے لے بیٹھی۔ یہ تعین ہونا ابھی باقی ہے۔ محسوس یہی ہو رہا ہے کہ آصف علی زرداری دورنِ خانہ ’’ڈیل‘‘ کر کے لینے والوں سے بہت کچھ ’’لے کر‘‘ ایک پاسے ہو گئے ہیں۔ اب بھاڑ میں جائے پی ڈی ایم اور اُس کا اتحاد۔ زرداری کو جو لینا تھا، لے لیا۔ دیوار میں اب مزید ٹکریں مارنے سے کیا حاصل؟یہ دنیا کیا اصول کی دنیا ہے۔ یہاں صرف مفادات دیکھے جاتے ہیں۔ جہاں سے کچھ حاصل ہوتا ہے، لے لیا جاتا ہے۔ اللہ اللہ خیر سلّا۔ آصف علی زرداری نے بھی کچھ لے لیا تو کیا بُرا کیا۔کسی اور کو بھی کچھ حاصل ہوتا نظر آیا تو وہ بھی یہی کرے گا۔ نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی جاتی ہے تو جائے بھاڑ میں۔ ہم عیدالفطر کے بعد ’’لانگ مارچ‘‘ کی طرف جائیں گے۔ تاکہ حکومت کا جانا ٹھہر جائے۔ لیکن خبر پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا جب تک کوئی اشارہ نہیں ہوتا اس ملک میں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اسٹیبلشمنٹ جو چاہے گی، وہی ہو گا۔ ملکی سیاست اُسی انداز سے چلتی ہے جیسے اُسے چلایا جاتا ہے۔ ہم آصف علی زرداری کو کتنا ہی کیوں نہ سیاسی چالباز کہیں، لیکن اُن کی سیاست بھی پسِ پردہ کہیں نہ کہیں اسٹیبلشمنٹ کی محتاج ہے۔
پی ڈی ایم کیا قصّہ پارینہ بن گئی؟
Apr 01, 2021